1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وینس فلمی میلے پر خواتین ہدایتکاروں کا راج

2 ستمبر 2012

یورپی ملک اٹلی کے خوبصورت شہر وینس میں شروع قدیمی فلمی میلے میں شامل کئی فلموں کی ہدایتکارائیں خواتین ہیں۔ اسی فلمی میلے میں سعودی عرب کی پہلی فلم واجدہ کو بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

تصویر: Getty Images

وینس فلمی فیسٹول کا آغاز انتیس اگست سے ہو چکا ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے یہ انہترواں فیسٹول ہے۔ اس میلے میں کل 52 فلموں کی نمائش کی جا رہی ہے۔ ان میں سے 21 کی ہدایتکارائیں خواتین ہیں اور ان میں ایک سعودی عرب کی حائفہ المنصور ہیں۔ اس مرتبہ فلموں کے موضوعات میں تنوع محسوس کیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ رواں برس فرانس کے مشہور کن فلم فیسٹول میں کسی خاتون ڈائریکٹر کی فلم کو مقابلے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ وینس فلمی میلے کا اختتام نو ستمبر کو ہو گا۔

میرا نائر کی انتہا پسندی کے موضوع پر بننے والی فلم The Reluctant Fundamentalist بھی اس میلے میں شامل ہے۔تصویر: MIRABAI

وینس فلم فیسٹول میں سعودی عرب کی پہلی تیار کردہ فلم واجدہ کی بھی نمائش ہو گی۔ اس فلم کو حائفہ المنصور نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس میں ایک آزاد منش گیارہ سالہ لڑکی کے کردار کو پیش کیا گیا ہے جو سعودی ثقافتی پابندیوں سے نجات کی متلاشی ہے۔ یہ کردار بارہ سالہ وعد محمد نے ادا کیا ہے۔ اس فلم کو سن 2009 میں ابو ظہبی میں ایک لاکھ امریکی ڈالر کے مالیتی شاشا گرانٹ ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ المنصور کے مطابق اس فلم میں انہوں نے جدید اور روایتی اقدار کے درمیان موجود تناؤ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فلم کی تکمیل میں جرمن پروڈکشن کمپنی ریزر اسٹوڈیوز کی معاونت شامل رہی ہے۔ سعودی عرب میں یہ فلم ڈی وی ڈی پر صرف دستیاب ہے۔ حائفہ المنصور 38 برس کی ہیں اور وہ قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی اور سڈنی یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔

وینس فلمی میلے کو حسین عورتوں کے ہجوم سے بھی تعبیر کیا جاتا ہےتصویر: AP

بھارتی خاتون ڈائریکٹر میرا نائر کی انتہا پسندی کے موضوع پر بننے والی فلم The Reluctant Fundamentalist بھی اس میلے میں شامل ہے۔ میرا نائر کی اسی فلم سے فیسٹول کا آغاز ہوا تھا۔ میرا نائر کئی اچھوتے موضوعات پر فلمیں بنا چکی ہیں۔ تیونس سے تعلق رکھنے والی ہندے بُوژیمع (Hinde Boujemaa) کی دستاویزی فیچر فلم بھی میلے میں شامل ہے۔ تیونس کی خاتون ہدایتکارہ کی فلم کا نام اِٹ واز بیٹر ٹومارو (It Was Better Tomorrow) ہے۔ یہ فلم ایک ایسی خاتون کی جدوجہد پر مبنی ہے جو تیونس میں رونما ہونے والے انقلاب کے دوران اپنی سوچ اور رویے میں تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ تیونس کا انقلاب عرب اسپرنگ کی ابتدا خیال کی جاتی ہے۔

وینس فلمی میلے میں ایک اور مسلمان ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والی جمیلہ صحراوئی (Djamila Sahraoui) کی فلم بھی مقابلے میں شامل ہے۔ وہ برسوں سے فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کی فلم یے ما (Yema) کو مقابلے میں شامل کیا گیا ہے۔ نوے منٹ کی اس فلم میں ایک خاتون کی اس جد وجہ کو دکھایا گیا ہے جو وہ اپنے فوجی بیٹے کی ہلاکت کے بعد نارمل زندگی کے حصول کے لیے کرتی ہے۔ الجزائری خاتون کی یہ دوسری فلم ہے۔ ایک اور خاتون ہدایتکارہ کا تعلق ارجنٹائن سے ہے۔ جیزمین لوپیز (Jazmin Lopez) بنیادی طور پر مختصر دورانیے کی فلمیں بناتی ہیں۔ ان کی پہلی لمبے دورانیے کی فلم لی اونس (Leones) ہے۔ اس فلم میں پانچ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک جنگل کے اندر پھیلی بھول بھلیوں میں پھنسنے کے بعد باہر نکلنے کی کوشش کوپیش کیا گیا ہے۔ امریکا میں پیدا ہونے والی یہودی ہدایتکارہ راما بُورشٹائن کی فلم فِل دی وائڈ (Fill the Void) بھی اس میلے میں شامل ہے۔

جن موضوعات پر فلمیں پیش کی جا رہی ہیں، ان میں خاص طور پر یورپی اقتصادی بحران، عرب اسپرنگ اور مذہبی انتہا پسندی نمایاں ہیں۔

ah/sks (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں