اٹلی کی عالمی سطح پر مشہور لیکن اپنے ہاں بہت زیادہ سیاحوں کی آمد کی شکایت کرنے والی کینال سٹی وینس نے ایک روزہ دورے پر اچانک وہاں کا رخ کرنے والے سیاحوں پر عائد ارائیول یا آمد ٹیکس دو گنا کر کے دس یورو فی کس کر دیا ہے۔
وینس شہر کی ایک نہر میں ایک گنڈولے میں سوار شہر کا نظارہ کرتے سیاحوں کا ایک گروپتصویر: Pond5 Images/IMAGO
اشتہار
یہ سچ ہے کہ دنیا بھر سے ہر سال کئی ملین سیاح اٹلی کے پانی میں گھرے اس تاریخی شہر کا رخ کرتے ہیں، جسے اس کی بہت سی نہروں کی وجہ سے کینال سٹی بھی کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ اس شہر کے باسیوں اور بلدیاتی انتظامیہ دونوں کو ہی طویل عرصے سے شکایت ہے کہ ہر سال بہت بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے وہاں جانے سے، جس کے لیے اوور ٹورزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس شہر کو مسلسل بہت نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔
اشتہار
گزشتہ سال لگایا جانے والا ڈے ٹور ٹیکس
وینس کی مقامی حکومت نے وہاں جانے والے سیاحوں کی تعداد کو مقابلتاﹰ محدود رکھنے کے لیے گزشتہ برس جو ٹیکس نافذ کیا تھا، اس کے تحت صرف دن کے وقت وہاں سیر کے لیے جانے والے سیاحوں سے بھی ایک 'ارائیول ٹیکس‘ وصول کیا جاتا تھا، جو پانچ یورو فی کس بنتا تھا۔
وینس کے مشہور زمانہ کارنیوال کے دوران ایک کتشی میں سوار کارنیوال کے چند شرکأءتصویر: ANDREA PATTARO/AFP via Getty Images
اس ڈے ٹور ٹیکس کے نفاذ کو ٹھیک ایک سال ہو گیا ہے۔ اب اس 'ارائیول ٹیکس‘ کے نافذ ہونے کا دوسرا سال شروع ہونے پر آج جمعہ 18 اپریل سے حکام نے ایک اور فیصلہ بھی کیا ہے، جو اس شہر کی سیر کرنے والے سیاحوں کے لیے ایک 'مہنگا فیصلہ‘ ثابت ہو گا۔
نئے فیصلے کے مطابق اگر کوئی سیاح پہلے سے تیاری کر کے وینس جائے اور صرف دن کے وقت اس شہر کی سیرکرے، تو اسے ایڈوانس بکنگ کے ساتھ اور 'ڈے ٹرپ‘ ٹورسٹ کے طور پر پانچ یورو ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
لیکن اگر وینس جانے کا ارادہ اچانک کیا جائے، اور اس فیصلے اور وہاں پہنچنے کے درمیان کم از کم تین دن کا فرق نہ ہو، تو ایسے ہر سیاح کو اس شہر کی سیر کے لیے دس یورو ادا کرنا ہوں گے۔
وینس کے سالانہ کارنیوال کے دوران اس سال فروری میں شہر کی گرنیڈ کینال سے گزرتے شرکت کنندگانتصویر: ANDREA PATTARO/AFP via Getty Images
عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل شہر
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت، تاریخ اور سڑکوں کے بجائے نہروں جیسی کئی دیگر خصوصیات کے سبب اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
وینس کی انتظامیہ نے وہاں شب بسری کرنے والے سیاحوں پر فی کس فی شب کی بنیاد پر خصوصی ٹیکس تو پہلے ہی عائد کر رکھا تھا، مگر دن کے وقت صرف چند گھنٹوں کے لیے وہاں سیر کے لیے جانے والے سیاحوں پر بھی ٹیکس لگانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تھا کہ اوور ٹورزم یونیسکو کی ایک سائٹ کے طور پر اس شہر کی مسلمہ درجہ بندی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی تھی۔
سمندر سے لی گئی ایک تصویر جس میں وینس کا سینٹ مارک اسکوائر دیکھا جا سکتا ہےتصویر: imagoDens/Zoonar/picture alliance
ٹیکس مخالفین کا موقف
اب جب کہ وینس کا 'اچانک‘ ڈے ٹور کرنے والے سیاحوں سے وصول کیا جانے والا فی کس ٹیکس دگنا بھی کر دیا گیا ہے، کئی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس سے بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا، حالانکہ یوں اس مد میں شہری انتظامیہ کو ہونے والی آمدنی یقیناﹰ زیادہ ہو جائے گی۔
اس مخصوص ٹیکس کی مخالفت کرنے والے سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ صرف دن کے دوران وہاں جانے والے سیاحوں پر بھی ایک پائلٹ پروگرام کے تحت ٹیکس لگا کر دیکھ لیا گیا، اس تجربے کا ایک سال پورا بھی ہو گیا، مگر وہاں جانے والے سیاحوں کی اتنی حوصلہ شکنی تو نہ ہوئی کہ ان کی سالانہ تعداد کم ہو جاتی۔
وینس کی ایک نہر، کشتی میں سوار سیاح اور پل پر کھڑے ہوئے بہت سے غیر مقامی شائقینتصویر: Luca Ponti/IPA/picture alliance
ڈھائی سے تین کروڑ تک سیاح
سیاح یہ ٹیکس اس طرح ادا کرتے ہیں کہ وہ ایک ایپ سے ایک خاص کیو آر کوڈ اپنے موبائل فونز پر ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، جو وینس شہر کے مختلف حصوں تک رسائی کے لیے کوڈ ریڈر مشینوں کے ذریعے چیک کیا جاتا ہے۔
اگر یہ کوڈ وہاں جانے سے تین روز پہلے ڈاؤن لوڈ کیا جائے تو ہر سیاح کو پانچ یورو ادا کرنا ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اسے 72 گھنٹے سے کم عرصہ قبل ڈاؤن لوڈ کیا جائے، تو کسی بھی ٹورسٹ کو دس یورو ادا کرنا پڑتے ہیں۔
یہ کیو آر کوڈ وینس میں صبح ساڑھے آٹھ بجے سے لے کر سہ پہر چار بجے تک کے دوران قیام کے لیے درکار ہوتا ہے۔
حد سے زیادہ سیاحوں سے متاثرہ یورپی شہر
شاندار فن تعمیر اور ثقافت پر فخر کرنے والے ایمسٹرڈیم اور روم جیسے یورپی شہر لاتعداد سیاحوں کے لیے مقناطیسی کشش تو رکھتے ہیں لیکن یہ بات مقامی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بھی ہے۔
تصویر: Grgo Jelavic/PIXSELL/picture alliance
وینس
وینس یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ بدقسمتی سے اس کی خوبصورتی اسے بہت مہنگی پڑ رہی ہے کیونکہ لاکھوں سیاح ہر سال شہر میں آتے ہیں اور یہاں کے مکینوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتے ہیں۔ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے شہر کے حکام ڈے ٹرپرز کی انٹری فیس پر غور کر رہے ہیں۔ بہت سے سیاح بحری جہازوں سے وینس میں اترتے ہیں۔ وینس میں حالیہ برسوں میں باقاعدگی سے سیاحوں کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔
تصویر: Vandeville Eric/abaca/picture alliance
فلورنس
فلورنس ایک اور یورپی شہر ہے، جو یورپ میں خوبصورت فن تعمیر اور عالمی معیار کے عجائب گھروں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے اتنی دلچسپی کا باعث ہے کہ وہ یہاں آئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کا اندرون شہر سیاحوں سے اس قدر بھرا رہتا ہے کہ یہاں بمشکل کوئی مقامی باشندہ نظر آتا ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے حکام نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Daniel Kalker/picture alliance
روم
روم کا کوئی مشہور نشان اپنے پاس رکھنا بہت نایاب سمجھا جاتا ہے۔ اطالوی شہر کے بہت سے تاریخی اور ثقافتی پرکشش مقامات سیاحوں کے لیے ایک حقیقی مقناطیس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2019ء میں، روم میں رات کا قیام کرنے والے سیاحوں کی ریکارڈ تعداد، قریب 26 ملین تھی۔ حکام نے ٹریوی فاؤنٹین تک رسائی کو محدود کر کے اور ہسپانوی اسٹیپس پر بیٹھنے کی اجازت نہ دے کر سیاحت کے انتظامات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
چیک دارالحکومت میں دیکھنے اور اسے اپنی یادداشت میں سجا لینے کے متعدد حیسن مناظر اور مقامات پائے جاتے ہیں۔ چارلس برج پر ٹہلنا، چیک بئیر نوش کرنا، گولڈن پراگ کی حسین یاد اور بہت کچھ سیاحوں کے لیے منفرد کشش رکھتا ہے۔ کورونا وبا سے قبل اس شہر میں ہر سال سات تا آٹھ ملین سیاح آیا کرتے تھے۔ 1.3 ملین آبادی والے اس شہر میں کورونا کے دور سے لے کر حالیہ دنوں تک سیاحوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: Emin Sansar/AA/picture alliance
دوبروونیک
جب سے اس شہر کا نام ٹیلی ویژن سیریز "گیم آف تھرونز" میں شامل ہوا، تب سے دوبروونیک ہر کسی کی زبان پر ہے۔ اس کا دلکش پرانا شہر یونیسکو کےعالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ کئی سالوں سے سیاحوں کی تعداد اس چھوٹے سے قصبے پر بوجھ بنتی جا رہی ہے، جو 2011 ء میں پانچ لاکھ تھی جبکہ سے 2019 ء تک ہونے والے اضافے سے یہ 1.5 ملین ہو گئی۔ حکام اس کےتاریخی مرکز تک رسائی کو محدود کرنے پرغور کر رہے ہیں۔
تصویر: Grgo Jelavic/PIXSELL/picture alliance
ایمسٹرڈیم
ایمسٹرڈیم برسوں سے سیاحوں کی ضرورت سے زیادہ تعداد سے متاثر ہو رہا ہے، کیونکہ اسے’لذت پسندوں‘ کے لیے جنت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مقامی لوگ اس سے پریشان ہیں اورمحسوس کرتے ہیں کہ شہر کی سڑکوں پرسیاحوں کی بھیڑ کی وجہ سے ان کا معیار زندگی گرتا جا رہا ہے۔ شہری حکام بعض علاقوں میں شراب کے استعمال اور بھنگ پر بھی پابندی لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 2023ء میں تقریباً 18 ملین سیاحوں کی ایمسٹرڈیم آمد متوقع ہے۔
تصویر: Jochen Tack/picture alliance
بارسلونا
2019 ء میں، بارسلونا میں سیاحوں کی تعداد 12 ملین ریکارڈ کی گئی تھی حالانکہ اس کی آبادی صرف 1.6 ملین ہے۔ اگرچہ کووڈ وبائی مرض کے باعث سیاحوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی لیکن اس کے باوجود مقامی باشندے سیاحوں کی بھیڑ کے اثرات سے تنگ آ چکے ہیں۔ 2022 ء میں شہر نے وسطی بارسلونا کے گائیڈڈ ٹورز پر پابندی عائد کر دی تھی۔
تصویر: Daniel Kalker/picture alliance
لزبن
کورونا وبائی مرض سے پہلے یہاں ہر سال چار سے چھ ملین سیاح آتے تھے جبکہ پرتگال کے دارالحکومت کی آبادی صرف نصف ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر سیاحت مقامی ہاؤسنگ سیکٹر پر زبردست دباؤ کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ بہت سے اپارٹمنٹس کو تعطیلاتی رہائشوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کو مضافاتی علاقوں میں رہنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Hugo Amaral/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture aliance
8 تصاویر1 | 8
وینس شہر کی مقامی آبادی بہت زیادہ نہیں ہے۔ اس کے تاریخی وسطی حصے کی موجودہ آبادی صرف 48,283 ہے۔ مگر میونسپل ریکارڈ کے مطابق 2020ء سے اب تک اس شہر کی سیر کے لیے وہاں جانے والے سیاحوں کی مجموعی تعداد 25 اور 30 ملین کے درمیان بنتی ہے۔