يورپی يونین: ليبيا ميں فوجی کارروائی کے خلاف
14 مارچ 2011يورپی يونين نے ليبيا کے بارے ميں ايک مشترکہ موقف پر اتفاق تو کر ليا ہے ليکن اس اتفاق رائے کے فوری نتائج کچھ متاثر کن نہيں ہيں۔ جرمن چانسلر آنگيلا ميرکل نے کہا ’’ہم يہ چاہتے ہيں کہ ڈکٹيٹر قذافی اقتدار چھوڑ دے۔ وہ ہمارے لیے ايک جائز مکالمتی فريق نہيں رہے کيونکہ وہ خود اپنے عوام کے خلاف جنگ کر رہے ہيں۔ اس لیے ہم يہ جائزہ بھی ليں گے کہ يورپی يونين کی جانب سے کيا مزيد پابندياں، خاص طور پر مالی اور اقتصادی پابندياں لگائی جا سکتی ہيں تاکہ يہ واضح کيا جا سکے کہ معمر قذافی کی حکومت کو ہماری حمايت حاصل نہيں اور وہ ہمارے لیے کوئی با اختيار مکالمتی فريق بھی نہيں رہے۔‘‘
يورپی يونين قذافی کے بجائے ليبيا کے شہر بن غازی ميں اپوزيشن کی عبوری کونسل سے بات چيت کرنا چاہتی ہے۔ فرانس نے تو يورپی يونين کے واحد ملک کے طور پر اس کونسل کو ليبيا کے عوام کی واحد جائز نمائندہ تک تسليم کر ليا ہے۔ فرانس کے اس تنہا اقدام پر يورپی يونين ميں خاصی تلخی بھی پيدا ہوئی ہے۔ فرانسيسی صدر نکولا سارکوزی نے بعض شرائط پوری ہونے کی صورت ميں ليبيا ميں مخصوص اہداف پر فضائی حملوں کی بات بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ يہ ان کا اور برطانوی وزيراعظم ڈيوڈ کيمرون کا مشترکہ موقف ہے۔
يہ پہلے ہی سے ظاہر تھا کہ يورپی يونين کی سربراہ کانفرنس کے اختتامی اعلاميے ميں اس کا کوئی خاص ذکر نہيں ملے گا اور يہی ہوا بھی۔ ليکن صدر سارکوزی اس پر بھی مطمئن نظر آتے تھے۔ انہوں نے کہا:’’ميں اور مسٹر کيمرون اس پر بہت مطمئن ہيں کہ يورپی کونسل کے اعلاميے ميں فضائی حملوں کے بارے ميں ہمارے تفکرات کو جگہ دی گئی ہے اور يہ اشارہ کيا گيا ہے کہ يورپی يونين کے رکن ممالک ليبيا کے عوام کے تحفظ کے لیے تمام ضروری امکانات پر غور کريں گے۔‘‘
تاہم اس معاملے ميں ’غور کرنے‘ کا مطلب اسے تاخير ميں ڈالنا ہے۔ يورپی يونين کے رکن ممالک ميں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کے خلاف بہت شديد مزاحمت پائی جاتی ہے۔
سويڈن کے سربراہ حکومت فريڈرک رائن فيلڈ، جن کا ملک نيٹو کا رکن نہيں ہے، اس معاملے کو يورپی يونين کے دائرہء اختيار سے باہر سمجھتے ہيں۔ انہوں نے کہا ’’ميرے خيال ميں فوجی مداخلت کے بارے ميں ہر قسم کی بحث اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، عرب ليگ اور نيٹو ميں ہونا چاہيے۔ يہ يورپی يونين کی ذمہ داری نہيں ہے۔‘‘
برطانوی وزير اعظم شمالی افريقہ سے متعلق يورپی يونين کی پاليسی کو بالکل نئے سرے سے ترتيب دينا چاہتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ پاليسی قطعی کارگر نہيں ہے ’’شمالی افريقہ، اسپين کے ساحل سے صرف چند ميل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اُس کا اثر براہ راست يورپ پر پڑتا ہے۔ وہاں جو زبردست تبديلياں آ رہی ہيں، اُن پر اثر انداز ہونا ہمارے مفاد ميں ہے۔ ہميں ان تبديليوں کی حمايت کرنا چاہيے۔ ہميں اُن اربوں يورو کی رقوم سے پہلے سے زيادہ شرائط منسلک کرنا چاہیئں، جو ہم ادا کر رہے ہيں۔ ہميں ان ملکوں کو ايک بہت بڑی پيشکش کرنا چاہيے، جس کی بنياد اُن زبردست اقتصادی مواقع پر ہو، جو يورپ کے ساتھ ان ممالک کی تجارت اور تعاون ميں اضافے ميں پنہاں ہيں۔‘‘
اس سلسلے ميں عرب ليگ پر بھی بہت کچھ منحصر ہے جس نے ہفتہ کے روز قاہرہ ميں ہونے والے اجلاس ميں ليبيا کی فضائی حدود میں نو فلائی زون قائم کرنے کی حمايت کی۔ يورپی يونين کی کونسل کے صدر ہيرمن فان رومپوئے نے عرب ليگ اور افریقی يونين کے ساتھ جلد ہی ايک سربراہ کانفرنس کی اپيل کی ہے تاکہ ليبيا کے مسئلے پر آئندہ اقدامات سے متعلق بات چيت ہو سکے۔ کسی فوجی مداخلت کی صورت ميں اُن کا تعاون لازمی ہو گا۔
رپورٹ: کرسٹوف ہاسل باخ، برسلز / شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک