1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپ جانے کی خواہش اور موت کا سفر

دانش بابر6 مئی 2016

پاکستانی عليم خان نے اپنے يورپ جانے کے ارادوں کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے ليے ايک انسانی اسمگلر کا سہارا ليا۔ تاہم يورپ سے ملک بدر کيے جانے کے بعد آج اپنے فيصلے اور سفر کے بارے ميں بات کرتے ہوئے ان کے پاس صرف پچھتاوا ہے۔

تصویر: DW/D. Baber

قريب سات ماہ بعد پاکستان میں واپس قدم رکھتے ہی علیم خان نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ پھر کبھی یورپ جانے کے ليے غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ خیبر ایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے مضبوط قدامت کے مالک پچیس سالہ علیم خان کے چند دوست سویڈن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ٹیلی فون پر ان کی باتيں اور فیس بک پر تصاویر اور رہن سہن دیکھ کر علیم نے بھی یورپ جانے کی ٹھان لی۔

خان نے بتايا، ’’روز اپنے دوستوں سے یورپ کی تعریفیں اور مختلف فلموں میں وہاں کی رونقیں دیکھ کر میں نے ارادہ کر ہی لیا کہ میں بھی ہر صورت وہاں جاکر اپنی زندگی بہتر بناؤں گا تاہم میری تعلیم اتنی نہ تھی کہ میں بھی اپنے دوستوں کی طرح وہاں ايک طالب علم کے طور پر جا سکتا۔‘‘

علیم خان کے بقول يہ سن 2013 کی بات ہے جب وہ اکثر یورپ جانے کے خیالوں میں گم رہ کر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کریانہ اسٹور میں کام کرتے تھے۔ ان کے گھر والے اس ارادے کے سخت خلاف تھے۔ عليم نے بتايا، ’’مجھے اپنے ايک قریبی دوست سے ایک ایسے ایجنٹ کا پتہ چلا جو لوگوں کو غیر قانونی راستے سے یورپ پہنچاتا تھا۔ بس مجھے اپنے خوابوں کی تکمیل کا یہ واحد راستہ نظر آيا اور خاندان والوں کو اعتماد میں لے کر ميں نے اس سفر کی تیاری کر لی۔‘‘

علیم کے مطابق ایجنٹ کے ساتھ ساڑھے چار لاکھ روپے ميں بات طے پائی تھی، جس میں ایک لاکھ ایڈوانس اور باقی یورپ پہنچتے ہی ادا کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ علیم نے مزيد بتايا، ’’گھر میں لوگ خوشی منا رہے تھے لیکن اس بات سے سب بے خبر تھے کہ بے شمار مصیبتیں اور تکالیف میری منتظر ہیں۔ شاید اس دن مجھے گھر سے نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘

علیم خان اور 82 دوسرے پاکستانی شہریوں کو ایجنٹ بلوچستان کے راستے ایران لے گیا، تفتان کا بارڈر پار کرنا علیم اور اس کے دوسرے ساتھیوں کے ليے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ اسی مقام سے واپسی کا راستہ ہمیشہ کے ليے بند ہوچکا تھا۔ ایجنٹ نے تمام افراد کو آگے بڑھنے اور ہر صورت میں بارڈر پار کرنے کا کہا تھا۔

سفر کا سب سے خطرناک حصہ ترکی سے يونان تک کا سفر تھاتصویر: DW/D. Baber

''ایران میں چار سے پانچ دن گزارنے کے بعد ہمیں سلماس کے دشوار برفانی پہاڑی علاقے سے ہوتے ہوئے ترکی میں داخل ہونا تھا۔ یہ سارا پیدل سفر تھا۔ اب بھی اس بارے میں سوچ کر میرے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔‘‘

علیم خان بتاتے ہیں کہ اس سفر میں جہاں شدید سردی اور کٹھن پہاڑی راستوں کی وجہ سے قریب بیس ساتھی ہمت ہار کر رہ گئے تو دوسری طرف ترک فوج کی فائرنگ کی وجہ سے چار افراد موقع پر ہلاک اور دو شدید زخمی بھی ہوگئے تھے۔ ان حالات کو یاد کرتے ہوئے علیم کہتے ہیں، ’’ایجنٹ نے ہمیں پہلے سے بتا دیا تھا کہ کامیابی صرف اپنی جان بچانے میں ہے۔ ہمارے پاس زخمیوں کو اسی حالت میں چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اگر ہم وہاں رکتے تو شاید ہم بھی ترک فوج کے گولیوں کا نشانہ بن جاتے۔‘‘

ترکی پہنچے کے بعد علیم اور اس کے ساتھ سفر میں شامل افراد قدرے خوش تھے لیکن اس مقام سے ان کا ایک اور امتحان شروع ہونا تھا کیونکہ پاکستان میں بیٹھے ایجنٹ اور ترکی کے ایجنٹ کے مابین رقم پر کچھ تنازعات چل رہے تھے۔ لہذا استمبول میں علیم خان سمیت تمام افراد کو ایک چھوٹے اندھیرے کمرے میں قید کر دیا گیا اور دونوں ایجنٹوں کے درمیان معاملات حل ہونے تک ان کو چار ماہ اس کمرے میں رکھا گیا۔ وہاں انہيں صرف ایک وقت کے کھانا ملتا تھا۔ دريں اثناء پاکستان میں ان کے گھر والوں سے مزید دو لاکھ روپے وصول کیے گئے۔ علیم خان کہتے ہیں کہ ترکی میں سخت حالات کی وجہ سے تمام افراد ہمت ہار چکے تھے۔ ان میں زیادہ تر لوگ واپسی کا سوچ رہے تھے تاہم یہ بری طرح پھنس چکے تھے۔

اگلے مرحلے ميں تمام مہاجرين کو دو گھنٹے کے سمندری راستے کو طے کر کے یونان میں داخل ہونا تھا۔ جس کے بارے میں ایجنٹ نے بتا دیا تھا کہ یہ ان کا آخری امتحان ہے۔ ’’واقعی یہ آخری امتحان ہی ثابت ہوا، یونان کے ساحل پر وہاں کی پولیس نے ہمیں گرفتار کرنے کے بجائے واپس کشتی میں بٹھا دیا اور کشتی میں سوراخ کر کے ہمیں جلد از جلد واپس ترکی کے ساحل پہنچنے کا حکم دیا۔‘‘

علیم خان کے بقول اس بار ان کا موت کے ساتھ کچھ عجیب مقابلہ تھا۔ یونانی پولیس کے ہاتھوں مرنا، سمندر میں ڈوب کر یا پھر ترکی فوج کے گولیوں کا نشانہ بن جانا؟ ’’کشتی ترکی کے ساحل سے کافی فاصلے پر ڈوب گئی۔ اب ہمیں تیر کر جان بچانی تھی۔ جن کو تیرنا نہیں آتا تھا ان کے چیخیں مجھے اب بھی یاد ہیں۔ بیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے تھے۔ ہم بھی ڈوب جاتے اگر ترک نیوی کے اہلکار ہمیں نہ بچاتے۔‘‘

عليم خان کی يونان سے ملک بدر کيے جانے کے بعد زير حراست ايک تصويرتصویر: picture alliance/dpa/ Italian Navy Press Office

علیم خان کہتے ہیں کہ ترکی سے ان کو اور دوسرے بچ جانے والے ساتھیوں کو پاکستانی حکام سے رابطے کے بعد عارضی یا ایمرجنسی پاسپورٹ کے ذریعے واپس پاکستان پہنچانے کا بندوبست کر دیا گیا۔

پاکستان واپس پہنچتے ہی ایئر پورٹ پر اميگریشن ڈپارٹمنٹ نے تمام ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو تفتیش کے ليے متعلقہ ایف آئی اے حکام کے حوالے کر دیا گيا جہاں ابتدائی کارروائی کے بعد اس قسم کے افراد کو عدالت میں پیش جاتا ہے۔

ایف آئی اے کے ایک اعلٰی عہديدار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زیادہ تر پاکستانیوں کو ترکی، یونان، اٹلی اور جرمنی سے ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غیرقانونی راستوں یا پھر جعلی دستاویزات کی مدد سے یورپ ميں داخل ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، پیکٹو (Prevention and Control of Human Trafficking Ordinance) آرڈیننس 2002 کے دفعہ ¾ اور ایمگریشن آرڈیننس 1979 کے دفعات 17,18، 22B کے تحت انسانی اسمگلروں اور متاثرہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل ميں لائی جاتی ہے۔ جس میں کم سے کم سات سال سے چودہ سال تک قید کی سزا اور نقد جرمانہ شامل ہيں۔ تاہم اکثر افراد کچھ وجوہات کی وجہ سے ان ایجنٹوں کے نام نہیں بتاتے جو ان کو دوسرے ممالک بھیجتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بچ جاتے ہیں۔

علیم خان کے بڑے بھائی کلیم کہتے ہیں کہ جب پشاور میں قائم ایف آئی اے کے دفتر سے ان کو علیم خان کے حوالے سے خبر آئی تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ سات ماہ سے ان کا اپنے بھائی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے تو یہ امید بھی چھوڑ دی تھی کہ علیم زندہ ہے۔ شکر ہے کہ یہ اب ہمارے ساتھ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک تلخ تجربہ تھا۔ میں کسی بھی انسان کو اس قسم کا مشورہ قطعی نہیں دے سکتا۔‘‘

علیم ان تمام مشلات کو یاد کر کے کہتے ہیں، ’’یورپ کا سفر میری زندگی کا ایک بھيانک خواب تھا۔ میرے ساتھ سفر کرنے والے کئی دوست اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ میں شاید اس ليے زندہ ہوں کہ لوگوں کو یہ بتا سکوں کہ وہ کبھی بھی غیرقانونی طور پر یورپ نہ جائیں کیونکہ یہ کسی خودکشی سے کم نہیں ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں