1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتمقبوضہ فلسطینی علاقے

يونان ميں فلسطينی پناہ گزين: اميد اور بے بسی ميں گھرے ہوئے

جاوید اختر اے ایف پی کے ساتھ
7 دسمبر 2025

ايتھنز میں چند فلسطينی پناہ گزینوں کا شکوہ ہے کہ یونان نے ان کی ذمہ داری تو لے لی تاہم انہیں تنہا چھوڑ دیا گيا ہے۔ اسی دوران چند آگے بڑھنے کی کوششوں ميں بھی ہيں۔

ایتھینز میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ
سات اکتوبر 2023ء کو شدت پسند تنظيم حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے یونانی عوام کی فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کو مضبوط کیا ہےتصویر: Costas Baltas/Anadolu Agency/IMAGO

غزہ میں زخمی ہونے والی پندرہ سالہ راغد الفرح ایتھنز میں اپنی زندگی از سر نو شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہيں۔ انہيں چلنے کے لیے بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

غزہ سے فروری میں یونان منتقلی کے بعد وہ اب ايتھنز ميں پناہ گزین خواتین کے لیے بنائے گئے ایک شیلٹر ہاؤس میں رہتی ہيں۔ راغد نے نيوز ايجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں زندہ بچ جاؤں گی، یورپ کی سرزمین پر قدم رکھنا تو بہت دور کی بات تھی۔‘‘

یونان کی وزارتِ مہاجرت میں سیکرٹری جنرل ہیراکلس موسکوف کے مطابق راغد غزہ کے ان دس نابالغ بچوں میں شامل ہيں، جو ہڈیوں اور جوڑوں کی پيچيدہ چوٹوں اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔

اسرائیلی دفاعی افواج کی بمباری میں زخمی ہونے کے بعد انہيں ان کی والدہ شادیہ اور چھوٹی بہن ارغوان کے ساتھ وہاں سے نکال ليا گيا تھا۔ ان کے خاندان کے باقی افراد، تین ديگر بہن بھائی اور والد اب بھی غزہ ہی میں ہیں۔

یونانی وزارت خارجہ کے مطابق مجموعی طور پر 26 فلسطینی فروری کے آخر میں ایتھنز پہنچے تھے۔

راغد کی والدہ شادیہ نے بتایا، ''جب ہمیں معلوم ہوا کہ یونان نے ہمیں پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے، تو ہمیں سکون ملا۔‘‘

ایک یونانی سماجی تحقیقاتی ادارے کے ايک حالیہ سروے کے مطابق 74 فیصد یونانی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتے ہیںتصویر: Aristidis Vafeiadakis/ZUMA/IMAGO

’صرف زندہ بچ جانا کافی نہیں‘

ايتھنز ميں مقيم ايک اور فلسطينی پناہ گزين بیس سالہ سارہ السویرکی پُرعزم ہيں کہ وہ ''صرف زندہ بچ جانے والی‘‘ نہ کہلائيں۔ انہوں نے کہا، ''میں بھی اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں کی طرح بننا چاہتی ہوں، گٹار اور پیانو سیکھنا چاہتی ہوں اور تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

ڈیئری امریکن کالج آف گریس میں داخلہ ملنے کے بعد سارہ جنوری میں اپنی تعلیم کا آغاز کريں گی۔ انہوں نے کہا، ''میں نے نفسیات کو اس لیے منتخب کیا تاکہ میں دوسروں کو ان کے صدمہ پر قابو پانے میں مدد کر سکوں۔‘‘

راغد کی والدہ کا کہنا ہے کہ شدید ذہنی صدمے کی وجہ سے وہ کئی مہینوں تک بستر پر پیشاب کر دیتی تھیں۔ اس کے باوجود انہيں اب تک کوئی نفسیاتی مدد فراہم نہیں کی گئی۔

راغد جولائی 2024ء میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں زخمی ہوئی تھیں۔ یہ حملہ غزہ کے شہر خان یونس میں کیا گیا تھا، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہو گئے تھے۔ راغد ملبے کی زد میں آ گئی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی دائیں ٹانگ اور کمر کو شدید چوٹیں پہنچی تھیں۔ ان کی والدہ شادیہ الفرح نے درد بھرے لہجے میں کہا، ''دو ماہ تک میری بیٹی وینٹی لیٹر پر رہی اور سات ماہ بستر سے اٹھ تک نہیں سکتی تھی۔‘‘

یونان پہنچنے پر راغد کا بچوں کے ایک ہسپتال میں علاج ہوا لیکن انہيں ایک سپورٹ بیلٹ کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑا، جب کہ ان کی والدہ، جو پہلے ہیئر ڈریسر کا کام کرتی تھیں، کو خود ہی ان کے لیے آرتھوپیڈک جوتے ڈھونڈنے پڑے۔

راغد کی والدہ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ یونانی حکومت کسی قسم کی مالی مدد فراہم نہیں کرتی۔ ’’یونان نے ہماری ذمہ داری تو لے لی لیکن پھر ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔‘‘

ایک فلسطینی عہدیدار لطیف درویش کا کہنا تھا کہ ایتھنز میں فلسطینی کمیونٹی نے حکومت سے غزہ کے مزید زخمی شہریوں کی میزبانی کی درخواست کی ہے لیکن موجودہ قدامت پسند حکومت میں اس کے لیے کوئی سیاسی ارادہ نظر نہیں آتا۔

انہوں نے مزید کہا، ''موجودہ حکومت فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی تاریخی دوستی بھول چکی ہے۔‘‘

سن اسّی کی دہائی میں بہت سے فلسطینی طلبہ نے یونان میں پناہ لی تھی، اُس وقت یونان میں آندریاس پاپاندریو کی سوشلسٹ حکومت تھی، جس نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے تھے۔

’کچھ بھی باقی نہیں رہا، ہم ختم ہو گئے ہیں‘

03:03

This browser does not support the video element.

عوامی یکجہتی

سات اکتوبر 2023ء کو شدت پسند تنظيم حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے یونانی عوام کی فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کو مضبوط کیا ہے۔ وزیرِاعظم کریاکوس مٹسوٹاکس کی حکومت نے ابھی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا لیکن ایک یونانی سماجی تحقیقاتی ادارے کے ايک حالیہ سروے کے مطابق 74 فیصد یونانی اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔

سارہ السویرکی نہیں جانتی کہ آیا وہ ''ہمیشہ کے لیے‘‘ ایتھنز میں رہیں گی۔ وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ''غزہ کا مستقبل اب بھی بہت غیر یقینی ہے۔‘‘

دس اکتوبر سے نافذ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں شادیہ الفرح کہتی ہیں، ''اس کا مطلب تعمیرِ نو نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کا یونان کے اسکول میں داخلہ کرا دیا ہے۔ انہوں نے بے بسی سے کہا، ''اس خوف کے ساتھ، ہم واپس جا کر خیموں میں نہیں رہ سکتے کہ دوبارہ بمباری شروع ہو سکتی ہے۔‘‘

شادیہ الفرح کہتی ہیں،''غزہ میں میرے باقی تین بچے مجھ سے کہتے ہیں کہ انہیں اس جہنم سے نکال لوں مگر میں خود کو 'بے بس‘ محسوس کرتی ہوں۔‘‘

دوسری جانب سارہ السویرکی مستقبل کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''سات اکتوبر کے بعد میرے خواب ادھورے رہ گئے تھے۔ لیکن اب میں پہلے سے زیادہ پُرعزم ہوں کہ تعلیم حاصل کر لوں گی۔‘‘

ادارت: عاصم سليم

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں