يونان ميں موجود مہاجرين کے ليے نقد رقم اور ’کيش کارڈ‘
عاصم سلیم
27 جولائی 2017
يورپی کميشن نے يونان ميں پھنسے مہاجرين کی مالی مدد کے ليے ايک نئی اسکيم کا اعلان کيا ہے۔ اس اقدام کا مقصد تارکين وطن کی مالی ضروريات پوری کرنا اور کرائے کے مکان حاصل کرنے ميں انہيں مدد فراہم کرنا ہے۔
اشتہار
يورپی کميشن نے يونانی حکومت کو ہنگامی امداد کے طور پر 209 ملين يورو کی پيشکش کی ہے۔ اس امداد کا مقصد در بدر ٹھوکريں کھانے والے تارکين وطن کو کرائے کے مکان دلانے ميں مالی مدد ہے تاکہ وہ ايک ’کيش کارڈ‘ کی بدولت مکان کا کرايہ ادا کر سکيں اور اپنی ديگر مالی ضروريات پوری کر سکيں۔
گزشتہ برس مارچ ميں بيشتر مشرقی يورپی رياستوں کی جانب سے سرحدی بندشيں متعارف کرائے جانے کے بعد ہزاروں تارکين وطن يونان ميں پھنس گئے تھے، جو ابھی تک وہيں قيام پذير ہيں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ايسے مہاجرين کی تعداد لگ بھگ باسٹھ ہزار ہے ليکن امدادی ادارے ايسے افراد کی حقيقی تعداد کہيں زيادہ بتاتے ہيں۔ ان ميں شامی، افغان، عراقی اور پاکستانی شہری سرفہرست ہيں۔ يہ مہاجرين يونان ميں مختلف مقامات پر کافی خستہ حال کيمپوں اور حالات ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کی شراکت ميں يورپی کميشن کی طرف سے مالی مدد کی اسکيم کا اعلان جمعرات ستائيس جولائی کو کيا گيا۔ منصوبے کے مطابق يو اين ايچ سی آر کا ادارہ مرکزی يونان ميں بائيس ہزار اور يونانی جزائر پر مزيد دو ہزار گھر تمعير کرائے گا۔ يورپی کميشن کے مطابق اس طرح رواں سال کے اختتام تک مزيد تيس ہزار مہاجرين کرائے کے باقاعدہ گھروں ميں منتقل ہو سکيں گے۔
انسانی بنيادوں پر امداد کے يورپی کمشنر نے اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے بتايا کہ يہ اسکيم ايک ’گيم چينجر‘ ثابت ہو گی۔ ان کے بقول ايسے نئے منصوبوں کا مقصد مہاجرين کو کيمپوں سے باقاعدہ مکانات ميں منتقل کرنا ہے تاکہ وہ معمول کی زندگی بسر کر سکيں۔
امدادی رقوم کا ايک حصہ مہاجرين کو ’کيش کارڈ‘ فراہم کرنے پر صرف کيا جائے گا جس کی مدد سے وہ کھانے پينے کی اشياء، خوراک، ادويات وغيرہ اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات پورے کر سکيں۔ مہاجرين کی امداد کے ليے يورپی يونين اب تک يونان کو چار سو ملين سے زائد يورو فراہم کر چکا ہے۔
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت اب تک 326 مہاجرين کو ملک بدر کيا جا چکا ہے، جن ميں 201 پاکستانی ہيں۔ يہ پناہ گزين بھاری رقوم خرچ کر کے يونان پہنچے ہيں اور ترکی ملک بدری کا خوف انہيں کھائے جا رہا ہے۔
تصویر: Jodi Hilton
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
تصویر: Jodi Hilton
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
تصویر: Jodi Hilton
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
تصویر: Jodi Hilton
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
تصویر: Jodi Hilton
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
تصویر: Jodi Hilton
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔