صدر رجب طيب ایردوآن ترکی اور يونان کی سرحد پر کشيدہ صورت حال کے حل کے ليے آئندہ ہفتے برسلز کا دورہ کر رہے ہيں۔ وہ اس دورے پر يورپی عہديداران کے ساتھ مشاورت کرنے ساتھ ساتھ اِس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کريں گے۔
اشتہار
ترکی کے صدر رجب طيب ایردوآن نے يونان پر زور ديا ہے کہ وہ مہاجرين کے ليے اپنے دروازے کھول دے۔ استنبول ميں اتوار آٹھ مارچ کو تقرير کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ميں يونان سے اپيل کرتا ہوں کہ وہ بھی مہاجرين کے ليے اپنے دروازے کھول دے اور اس بوجھ سے آزاد ہو جائے۔‘‘ ترک صدر کی يہ تقرير ٹيلی وژن پر نشر کی گئی، جس ميں انہوں نے مزيد بتايا کہ مہاجرين کے بحران کی تازہ صورتحال کا حل تلاش کرنے کے ليے وہ پير نو مارچ کو بیلجيم کے دارالحکومت برسلز جائيں گے۔ ایردوآن نے اميد ظاہر کی کہ برسلز سے واپسی پر ان کے پاس موجودہ بحران کا کوئی حل ہو۔
ترک صدر نے فروری کے اواخر ميں اعلان کيا تھا کہ ان کے ملک ميں موجود تارکين وطن کو يورپ کی طرف بڑھنے سے نہيں روکا جائے گا۔ ان کے اس بيان نے ترک يونان سرحد پر ايک نيا بحران کھڑا کر ديا ہے۔ اس وقت تقريباً پينتيس ہزار تارکين وطن زمينی راستے سے يونان ميں داخل ہونے کی غرض سے سرحد پر جمع ہيں۔ ترک حکام کا الزام ہے کہ يونانی سرحدی گارڈز زمينی و سمندری راستوں سے مہاجرين کا داخلہ روکنے کے ليے طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہيں۔ دوسری جانب ايتھنز حکومت کا موقف ہے کہ ایردوآن خود اس بحران کے ذمہ دار ہيں اور انہوں نے يورپی يونين پر دباؤ ڈالنے کے ليے يہ صورت حال پيدا کی۔
اس سلسلے ميں صدر ايردوآن نے ترک کوسٹ گارڈز کو احکامات جاری کيے تھے کہ مہاجرين و پناہ گزينوں کو بحيرہ ايجيئن پار کرنے کی کوششوں سے روکیں۔ اس صدارتی حکم کی وجہ مہاجرين کو سمندری سفر پر لاحق خطرات ہو سکتے ہیں۔ انقرہ حکومت نے وضاحت ديتے ہوئے مطلع کيا ہے کہ زمينی راستے سے مہاجرين کو آگے بڑھنے سے نہ روکنے کی پاليسی پر اب بھی عمل جاری ہے اور تازہ احکامات سمندری راستے سے جانے والے تارکين وطن کے حوالے سے ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ ترکی ميں تقريباً چار ملين مہاجرين اور پناہ گزين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يورپی يونين اور انقرہ حکومت کے مابين ايک معاہدے کے تحت انقرہ حکومت ان پناہ گزينوں کو يونان کی طرف بڑھنے سے روکنے کی ذمہ دار ہے۔ ترکی کا دعوی ہے کہ يورپی يونين نے معاہدے کی شرائط پوری نہيں کيں ہیں۔ جب کہ سياسی مبصرين کی رائے ہے کہ ایردوآن يورپی يونين سے شمال مغربی شام ميں اپنی جنگی سرگرميوں کی حمايت کے طلب گار ہيں۔
دنيا بھر ميں کہاں کہاں مہاجرين کے بحران جاری ہيں؟
اس وقت دنيا بھر ميں بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد تاريخ ميں اپنی اونچی ترين سطح پر ہے۔ اس تصويری گيلری ميں آپ جان سکتے ہيں کہ اس وقت کن کن ممالک کو مہاجرين کے بحرانوں کا سامنا ہے۔
رواں سال مئی کے اواخر ميں افريقی ملک برونڈی کے پناہ گزينوں کی تعداد 424,470 تھی۔ ان مہاجرين ميں سے تقريباً ستاون فيصد نے تنزانيہ ميں جبکہ بقيہ نے يوگينڈا، کانگو اور روانڈا ميں پناہ لے رکھی ہے۔ برونڈی ميں اقتصادی بد حالی، کھانے پينے کی اشياء کی قلت و بيمارياں وسيع پيمانے پر فرار کا سبب بن رہی ہيں۔ يو اين ايچ سی آر نے برونڈی کے مہاجرين کے ليے اس سال 391 ملين امريکی ڈالر کی امداد کی اپيل کر رکھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Kasamani
کانگو
مئی کے اختتام پر افريقہ ميں صحارا ريگستان کے نيچے واقع ممالک ميں پناہ ليے ہوئے کانگو کے مہاجرين کی مجموعی تعداد 735,000 تھی۔ کانگو کے مختلف علاقوں ميں مسلح تنازعات جاری ہيں اور اس ملک کو درپيش مہاجرين کے بحران کو انتہائی پيچيدہ تصور کيا جاتا ہے۔ سن 2017 سے اب تک اس ملک کے ملين افراد بے گھر ہو چکے ہيں اور اس کے علاوہ پڑوسی ملکوں کے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرين نے کانگو ميں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
عراق
عراق ميں جاری مسلح تنازعے کے سبب سن 2014 سے اب تک اس ملک کے تين ملين شہری بے گھر ہو چکے ہيں۔ تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق 2.1 ملين عراقی شہری اس وقت بے گھر ہيں اور اپنے ملک کے اندر ہی پناہ گاہوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ 260,000 عراقی تارکين وطن پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت بھی کر چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/K. Al-Mousily
روہنگيا مہاجرين
پچيس اگست سن 2017 سے لے کر رواں سال مئی کے اواخر تک پناہ کے ليے بنگلہ ديش ہجرت کرنے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد 713,000 ہے۔ روہنگيا مسلمان، ميانمار ميں ايک اقليتی گروپ ہيں جن کے پاس کسی ملک کی شہريت نہيں۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد رپورٹوں ميں ميانمار کی فوج کے روہنگيا کے خلاف اقدامات کو ’نسل کشی‘ سے تعبير کر چکا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں اس وقت 13.1 ملين افراد کو ہنگامی بنيادوں پر مدد درکار ہے۔ اس ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 6.6 ملين ہے جبکہ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک ساڑھے پانچ ملين شامی باشندے پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
وسطی افريقی جمہوريہ
وسطی افريقی جمہوريہ دنيا کے غريب ترين ممالک ميں سے ايک ہے۔ اس وقت ديگر ملکوں ميں پناہ کے ليے موجود اس ملک کے پناہ گزينوں کی تعداد 582,000 ہے جبکہ اپنے ہی ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 687,398 ہے۔ وہاں غربت کے علاوہ متصادم مسلح گروہوں اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے سبب مقامی لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہيں۔
تصویر: Imago/alimdi
يورپ
يورپ ميں سمندری راستوں سے اس سال اب تک 32,601 مہاجرين پہنچ چکے ہيں جبکہ بحيرہ روم کے راستے پناہ کے سفر ميں 649 ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2017ء ميں172,301 مہاجرين، 2016ء ميں 362,753، سن 2015 ميں 1,015,078 اور سن 2014 ميں 216,054 مہاجرين يورپ پہنچے۔ ان مہاجرين کا تعلق مشرق وسطی، افريقہ، مشرقی يورپ اور ايشيا سے ہے۔
تصویر: imago/Anan Sesa
يمن
يمن ميں حوثی باغيوں کے خلاف سعودی قيادت ميں عسکری اتحاد کی کارروائی کے سبب اب تک 192,352 افراد پڑوسی ملکوں ميں پناہ لے چکے ہيں۔ مشرق وسطی کے غريب ملکوں ميں سے ايک يمن ميں غربت اور عدم استحکام کے علاوہ مسلح تنازعہ لوگوں کے فرار کا سبب بنا۔ اس وقت اس ملک ميں موجود بائيس ملين سے زائد افراد کو انسانی بنيادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/A. Stahl
نائجيريا
اس افريقی ملک ميں دہشت گرد تنظيم بوکو حرام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں دو لاکھ سے زائد شہری ہجرت کر چکے ہيں جبکہ ملک ميں ہی بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد اس وقت 1.7 ملين بنتی ہے۔ نائجر، چاڈ اور کيمرون ميں بھی بوکو حرام کی وجہ سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔
تصویر: imago/epd/A. Staeritz
جنوبی سوڈان
جنوبی سوڈان ميں سن 2013 سے جاری خونريز مسلح تنازعے کے سبب اس ملک کے 2.4 ملين شہری پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔ علاوہ ازيں ملک کے اندر بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں ميں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Forrest
پاکستان
افغانستان اور روس اور امريکا کی جنگ کے دور سے پاکستان ميں لاکھوں افغان پناہ گزين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان ميں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد قريب 1.4 ملين ہے۔ ان مہاجرين کی ديکھ بھال کے علاوہ انہيں اتنی طويل مدت تک کے ليے بنيادی سہوليات کی فراہمی محدود وسائل والے ملک پاکستان کے ليے ايک چيلنج ثابت ہوا ہے۔