1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹارگٹڈ سبسڈی کسے کہتے ہیں؟

20 مارچ 2023

ماہرین معاشیات کے نزدیک بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نمٹنے کے لیے ’ٹارگٹڈ سبسڈی‘ ایک بہترین راستہ ہے۔غریب طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے یہ کس حد تک ضروری اور موثر ہو سکتی ہے؟

Pakistan | Monsun Überschwemmungen
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ڈی ڈبلیو اردو نے اس موضوع کی تفصیلات کے لیے ماہرین سے رابطہ کیا۔ ماہرین اقتصادیات مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ مہنگائی کی حالیہ لہر میں ابھی مزید شدت آئے گی، جس کا سب سے زیادہ اثر پسے ہوئے غریب طبقات پر پڑے گا۔

پاکستان کے قومی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق عمومی کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعتبار سے مہنگائی میں گزشتہ برس کی نسبت 27.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین اقتصادیات مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی حالیہ لہر میں ابھی مزید شدت آئے گی، جس کا سب سے زیادہ اثر پسے ہوئے غریب طبقات پر پڑے گا۔

 ایسے طبقات کی بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے اور بہت سے ماہرین معاشیات کے نزدیک اس ذمہ داری سے نمٹنے کے لیے 'ٹارگٹڈ سبسڈی‘ ایک بہترین راستہ ہے۔ لیکن ٹارگٹڈ سبسڈی کسے کہتے ہیں؟ اس موضوع کی گہرائی میں جانے سے قبل آئیے مہنگائی کی حالیہ لہر کے سبب پریشانی کا شکار شہریوں کی ایک جھلک دیکھیں۔ 

پاکستان: سیاسی یا معاشی بحران، ترجیحی حل کس کا؟

حکومتی تلوار ویلفیئر پروگرامز پر گرم: کئی حلقوں کی تنقید

'روز خود سے سوال کرتا ہوں کہ آج بچے بھوکے تو نہ سوئیں گے‘

58 برس کے شاہد اقبال گزشتہ 21 برس سے رکشہ ڈرائیور ہیں مگر یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ''جب بھی پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی خبر ملتی ہے دل مزید بیٹھ جاتا ہے۔ رکشہ استعمال کرنے والی سواریاں بھی ہم جیسی غریب ہوتی ہیں، ہم کرایہ بڑھائیں تو کوئی بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ بڑھائیں تو ایندھن کا خرچ کیسے پورا کریں، جس دن ہزار بارہ سو کی بچت ہو شکر ادا کرتا ہوں کہ کچھ تو ملا۔"

وہ مزید کہتے ہیں، ”روز خود سے سوال کرتا ہوں کہ آج بچے بھوکے تو نہ سوئیں گے۔ آخری بار گوشت تب کھایا، جب پڑوس میں شادی تھی۔ دال اور سبزی تک نہیں خرید سکتے۔ شکر ہے تین مرلے کا اپنا گھر ہے ورنہ مر جاتے۔"

ہم نے وہاں موجود دیگر رکشہ ڈرائیورز سے بھی بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کا بل گرمیوں میں تین ہزار تک ہو جاتا ہے، ''شاید بہت سے لوگوں کے لیے یہ معمولی رقم ہو مگر ہمارے لیے درد سر بن جاتی ہے۔ ہم نے تقریباً 19 مختلف رکشہ ڈرائیورز سے پوچھا، ''کیا ان کے گھر میں فریج ہے؟ تو محض دو نے اثبات میں جواب دیا۔‘‘ 

انار کلی میں اورینٹل کالج کے باہر فٹ پاتھ پر ثاقب نوید نے پکوڑوں کا چھوٹا سا اسٹال لگا رکھا ہے۔ وہ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے شدید پریشان ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''گزشتہ چھ ماہ کے دوران گیس کی قیمت فی کلو 150 سے بڑھ کر 280 ہو گئی ہے۔ روزانہ سیلنڈر میں دو کلو بھرواتا ہوں اور شام کو بمشکل سات آٹھ سو روپے کی بچت ہوتی ہے۔" ان کے ساتھ بیٹھے ان کے نوجوان بیٹے کا کہنا تھا، ”میں نے میٹرک کیا لیکن گزشتہ دو ماہ سے والد کے ساتھ بیٹھ کر یہی کام سیکھ رہا ہوں۔ لاکھوں لوگ ڈگریاں لینے کے باوجود بے روزگار ہیں اس لیے میں نے سوچا ابھی سے یہ کام سیکھ لوں۔"

'ٹارگٹڈ سبسڈی بہترین راستہ ہے‘ 

 پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بزنس ریکارڈر کے لیے لکھے اپنے حالیہ تحقیق مضمون 'غربت اور بے روزگاری میں شدید اضافہ‘ میں معیشت کی موجودہ شرح نمو کی روشنی میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے، 2022/23 کے دوران مزید 18 ملین افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خطرہ ہے۔ ممکنہ طور پر غربت میں ایسا یک لخت اضافہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”موجودہ معاشی صورت حال میں غریب طبقہ سب سے زیادہ پِس رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے جان پر بنی ہے۔ ہماری اشرافیہ نے سبسڈی کا ایسا نظام وضع نہیں کیا، جس کا براہ راست اور زیادہ سے زیادہ فائدہ غریب ترین طبقات کو ہو۔ بڑھتی ہوئی غربتمیں ٹارگٹڈ سبسڈی بہترین راستہ ہے، جلد سے جلد اس کا مزید جامع اور مؤثر نظام وضع کرنا چاہیے۔"

'دنیا میں عمومی سبسڈی کے بجائے ٹارگٹڈ سبسڈی کا رجحان ہے‘ 

معاشی امور کے ماہر وفاقی بیوروکریٹ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس میں اقتصادیات کے استاد وقار شیرازی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ”جب ملک کی پوری آبادی کے بجائے سب سے زیادہ ضرورت مند طبقات کی نشان دہی کر کے انہیں رعایتی نرخوں پر بنیادی ضروریات زندگی مہیا کی جائیں تو اسے ٹارگٹڈ سبسڈی کہتے ہیں۔"

وہ بتاتے ہیں، ”دنیا بھر میں مجموعی آبادی کو عمومی سبسڈی دینے کے بجائے ٹارگٹڈ سبسڈی کا رجحان ہے، جس کا مقصد معاشرے کے غریب ترین طبقات کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ ٹارگٹڈ سبسڈی سے کم بجٹ میں زیادہ بہتر اور موثر نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔"

'ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے ہمارے لیے پاس بہترین ڈھانچا موجود ہے‘

ملکی آبادی کی سماجی و معاشی حیثیت کے تعین کے لیے کیے گئے سروے ( این ایس ای آر) کے سابق کنٹری ڈائریکٹر آپریشنز وقار شیرازی کہتے ہیں، ”ٹارگٹڈ سبسڈی فراہم کرنے کے لیے ہمارے پاس بہترین ڈھانچا موجود ہے۔" 

وہ ڈی ڈبلیو اردو کو مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرامدنیا کے پانچ بڑے سوشل سکیورٹی نیٹ ورکس میں سے ایک ہے۔ اس میں پراکسی مینز ٹیسٹ اپروچ استعمال کرتے ہوئے 3 کروڑ چالیس لاکھ سے زائد گھرانوں کے ڈیجیٹل اعداد و شمار جمع کیے گئے جو اب کمپیوٹرائز ڈیٹا بیس میں موجود ہیں۔ کیوں کہ اس میں مختلف 45 ویری ایبلز کی مدد سے حتمی اسکور کا تعین کمپیوٹر کرتا ہے، سو اس میں تعصب یا جانبداری کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وجہ سے یہ نہایت موثر، قابل اعتماد اور سائنسی انداز کا بہترین اسٹریکچر ہے۔" 

ہزارہا بے گھر افغان شہری بھوک اور غربت کا شکار

01:43

This browser does not support the video element.

'حکومت کو کم از کم بھی رقم ڈبل کرنے کی ضرورت ہے‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں، ”گزشتہ اور موجودہ حکومت نے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کی کوشش تو کی ہے مگر یہ رقم بہت کم ہے۔ بجٹ میں حکومت کو کم از کم بھی یہ رقم ڈبل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ابھی تقریباً 4 سو ارب ہے، جو 8 سو ارب تک جانی چاہیے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، ”ڈیٹا کی حد تک ہمارے پاس بہترین ڈھانچا موجود سہی لیکن اسے استعمال کرنے کی جامع حکمت عملی ابھی تک وضع نہیں ہو سکی۔ کیا غریب طبقات کو کسی سکیم کے تحت نقد رقم دینی چاہیے یا یوٹیلیٹی سٹورز کی طرز پر سستے راشن کے مراکز۔ یہ سب چیزیں باقاعدہ پالیسی کی صورت اور جلد از جلد مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔"

جبکہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ابھی تک غریب خاندانوں کی مطلوبہ رقم کا محض 22 فیصد مہیا کیا جا رہا ہے اور اس کا دائرہ 7 ملین گھرانوں تک محدود ہے جبکہ اصل مستحق تعداد 13 ملین گھرانوں سے زائد ہے۔ غربت برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے، اگر ٹارگٹڈ سبسڈی اسی رفتار سے نہ دی گئی لاکھوں گھرانے بدترین بھوک کا سامنا کریں گے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں