ٹرانسپیرنسی کا کرپشن انڈکس: جرمنی کو ابھی کافی کام کرنا ہے
25 جنوری 2022
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اپنے کرپشن پرسیپشنز انڈکس (سی پی آئی) کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر عوامی شعبے میں پائے جانے والے بدعنوانی کے تصورات کو دستاویزی طور پر ریکارڈ کرتی ہے۔ تازہ ترین انڈکس میں جرمنی دسویں نمبر پر ہے۔
اشتہار
بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کرنے والی اور ہر سال اپنا سی پی آئی انڈکس جاری کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سال 2021ء کے لیے اپنی جو تازہ ترین عالمی درجہ بندی جاری کی ہے، اس میں جرمنی کے لیے اچھی خبر بھی ہے اور بری بھی۔
اچھی خبر یہ کہ جرمنی کی اس انڈکس میں پوزیشن میں کوئی تنزلی نہیں ہوئی۔ بری خبر یہ کہ اس درجہ بندی میں جرمنی کی رینکنگ میں ماضی کے مقابلے میں کوئی بہتری بھی نہیں ہوئی۔ تازہ ترین درجہ بندی میں جرمنی کو 100 میں سے 80 پوائنٹس ملے ہیں اور وہ 10 ویں نمبر پر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ جرمنی اس رینکنگ میں گزشتہ چار برسوں سے مسلسل اسی پوزیشن پر ہے۔
ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور فن لینڈ پہلے نمبر پر
منگل 25 جنوری کو جاری کردہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اس نئے انڈکس میں پہلے نمبر پر ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور فن لینڈ کے نام آتے ہیں۔ یہ تینوں وہ ممالک ہیں، جن کو عوامی سطح پر سب سے کم کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ ان تینوں ممالک میں سے ہر ایک کا اسکور 100 میں سے 88 ہے۔
ان تین ریاستوں کے برعکس جن تین ممالک کو سب سے زیادہ بدعنوان سمجھا جاتا ہے اور جو تازہ ترین عالمی درجہ بندی میں سب سے نیچے ہیں، وہ شام، سوڈان اور صومالیہ ہیں۔
اسکور رینکنگ سے زیادہ اہم
ٹرانسپیرنسی کے اس انڈکس کی بنیاد پر اس تنظیم کے ماہرین نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس انڈکس میں کسی بھی ملک کے لیے اس کی درجہ بندی سے کہیں زیادہ اہم اس کا سکور ہے۔ اس لیے کہ اس کا اسکور یہ واضح کرتا ہے کہ اسے کتنا کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف درجہ بندی اس لیے بہت اہم نہیں ہے کہ یہ انڈکس میں شامل کیے گئے ممالک اور خطوں کی مجموعی تعداد کی بنیاد پر آسانی سی بدل بھی سکتی ہے۔
سال 2021ء کے لیے اس انڈکس میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مجموعی طور پر 180 ممالک اور خطوں کی حکومتوں کی درجہ بندی کی۔
سی پی آئی اسکور سے مراد کیا؟
کرپشن پرسیپسشنز انڈکس میں کسی ملک کے اسکور سے مراد یہ ہے کہ اس کا اسکور جتنا زیادہ ہو گا، اس کا عوامی شعبہ اتنا ہی کم کرپٹ ہو گا۔
اس انڈکس کے لیے پبلک سیکٹر میں منتخب نمائندوں اور اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس بات کو بھی کہ کسی معاشرے میں طاقت کے غلط استعمال، رشوت ستانی اور عوامی وسائل کی چوری کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے اپنی کارکردگی میں کس حد تک کامیاب رہتے ہیں۔
اشتہار
جرمنی کا اسکور کیا ظاہر کرتا ہے؟
تازہ ترین سی پی آئی انڈکس میں جرمنی کا اسکور 80 ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمن پبلک سیکٹر کی ساکھ کافی 'صاف‘ ہے۔ اس فہرست میں جرمنی کی دسویں پوزیشن اس لیے غیر متوقع نہیں ہے کہ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور مضبوط جمہوریت بھی ہے، جہاں عوامی اداروں اور ان کے اہلکاروں کو ان کے فیصلوں کے لیے جواب دہ بنایا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی کی جرمن شاخ کے سربراہ ہارٹمُوٹ بوئمر کہتے ہیں، ''اس انڈکس میں جرمنی کی پوزیشن گزشتہ چار برسوں کے دوران بہتر نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کرپشن کے خلاف اپنی کوششوں میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر بہت زیادہ کامیاب نہیں۔ اس لیے کہ جرمن معاشرے کے سبھی شعبوں میں اب بھی بدعنوانی کے حوالے سے بہت سی خامیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تازہ انڈکس میں جن 25 سب سے کم بدعنوان ممالک کو 'صاف ترین‘ قرار دیا گیا ہے، ان میں سے 16 مغربی جمہوری ممالک ہیں۔ جرمنی بھی ان میں سے ایک ہے، مگر ان 16 مغربی ریاستوں میں جرمنی اسکینڈے نیویا کے ممالک سے پیچھے اور اپنے فرانس اور آسٹریا جیسے ہمسایہ ممالک سے آگے ہے۔
امریکا ستائیسویں نمبر پر
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نئے سی پی آئی انڈکس میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا 67 کے اسکور کے ساتھ 27 ویں نمبر پر ہے۔ یوں امریکا اس حوالے سے ہانگ کانگ، یوروگوآئے اور متحدہ عرب امارات سے بھی پیچھے ہے۔
سی پی آئی انڈکس کی وضاحت کرتے ہوئے ٹرانسپیرنسی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس انڈکس کا مطلب یہ ہے کہ کس ملک کو کتنا کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ کوئی ملک واقعی کتنا بدعنوان ہے۔
ولیم نوآ گلوکروفٹ (م م / ع ا)
جمہوریت اور آزادی کے لیے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج
2019ء کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ بدعنوانی، غربت، معاشرتی عدم مساوات، نسلی امتیاز اور تحفظ ماحول کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ تبدیلی لانے کی شدید خواہش دنیا بھر میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Casarez
ہیٹی: ’ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جاتا‘
ہیٹی میں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاج کے دوران مظاہرین صدر جوونیل موئیز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہیٹی کی حکومت کو بدعنوانی کے متعدد الزامات کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو ہسپتالوں اور تعلیم و تربیت تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہیٹی مغربی کرہ کا غریب ترین ملک ہے۔
تصویر: Reuters/V. Baeriswyl
چلی: ناانصافی کے خلاف مزید برداشت نہیں‘
اکتوبر کے آخر سے چلی میں مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین اصلاحات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران اکثر ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Silva
بھارت: ’قانون، جو ملک کو تقسیم کر سکتا ہے‘
پھل فروش محمد انس قریشی بھارت میں شہریت کے متنازعہ ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔ یہ قانون تین ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی مہاجرین کی بھارتی شہریت کے حصول کو آسان بناتا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے یہ مہاجرین مسلمان نہ ہوں۔ ان مظاہروں میں اب تک بیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
عراق: آخری دم تک ساتھ دینے کا وعدہ‘
عراق میں اکتوبر سے بدعنوانی اور ایران نواز حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں چھیاسٹھ سالہ ام مہدی بھی شریک ہیں۔ اب تک ان مظاہروں میں ساڑھے چار سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم عبدل عادل مہدی کا استعفی بھی اس احتجاج کی شدت کو کم نہیں کر سکا۔ مظاہرین سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
ایران: ’اقتصادی صورتحال انتہائی خراب‘
نومبر میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران ایران میں کم از کم پندرہ سو افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ احتجاج میں شریک یہ شخص اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے گولیوں کے خول ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ یہ مظاہرے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
ہانگ کانگ : ’حکومت ہمارے مطالبے تسلیم کرے‘
ہانگ کانگ میں احتجاج میں شریک یہ دونوں خود کو لبرٹی گرل اور لٹل برادر کہتے ہیں۔ چین کا خصوصی انتظامی علاقہ ہانگ کانگ آج کل شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف یہ مظاہرےجون سے جاری ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
فرانس: ’صرف امیروں کا تحفظ‘
دیدیئر بیلاک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تجویز کردہ اصلاحات کے خلاف مظاہروں میں شریک ہیں۔ اس احتجاج اور ہڑتال کی وجہ سے ٹرینوں اور میٹرو کی آمد و رفت خاص طور پر متاثر ہوئی ہے۔ ابھی تک اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ گزشتہ برس موسم سرما میں بھی ’زرد جیکٹ‘ نامی احتجاج کے دوران ماکروں کے اصلاحاتی ایجنڈے پر شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Tessier
بولیویا: ’حکومت ہمارے وطن کو فروخت کر رہی ہے‘
ریویرا زمپانو نے مستعفی ہونے والے ملکی صدر ایوو مورالیس کے دیگرحامیوں کے ساتھ مل کر سڑک کی ناکہ بندی کی تھی۔ مورالیس کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے کے خلاف کئی ہفتوں تک مظاہرے کیے گئے تھے۔ تاہم ان مظاہرین کے برعکس زمپانو کا موقف ہے کہ بولیویا کی عبوری حکومت ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تصویر: Reuters/M. Bello
کولمبیا:’ انقلاب کے بعد ہی تبدیلی‘
اندریس فیلیپے نے دسمبر کے اوائل میں ملکی سربراہ مملکت ایوان دوکے کے خلاف ہونے میں مظاہروں میں شرکت کی۔ مظاہرین سماجی شعبے میں منصفانہ پالیسیوں، تعلیم و تربیت کے لیے مزید رقم مختص کرنے اور صحت کے بہتر نظام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کے بہتر تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا ایک مطالبہ سابقہ فارک باغیوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی تھا۔
تصویر: Reuters/L. Gonzalez
لبنان:’ گزشتہ تیس برسوں سے یہ ہمیں لوٹ رہے ہیں‘
اکتوبر سے لبنان میں گاہے بگاہے مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ یہ لوگ بدعنوانی اور غلط اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے۔ وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی حبا غوسن جیسے شہری نئے نامزد کردہ حکومتی سربراہ حسن دیاب کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حسن دیاب کو شیعہ تنظیم حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔