دنیا بھر کی حسیناؤں میں سے ایک مس یونیورس رواں برس سترہ تاریخ کو منتخب کی جائے گی۔ مس یونیورس کا مقابلہ گزشتہ چھیاسٹھ برسوں سے جاری ہے۔
اشتہار
رواں برس مس یونیورس کے انتخاب کا مقابلہ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں منعقد ہو رہا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک تاریخی مقابلہ ہے کیونکہ پہلی مرتبہ ایک ٹرانس جینڈر یا ہیجڑہ عورت بھی اس میں باضابطہ طور پر مس یونیورس منتخب ہونے کی کوشش میں ہے۔
اس ٹرانس جینڈر خاتون کا نام انجیلا پونس ہے اور اس کا تعلق اسپین سے ہے۔ انجیلا پونس رواں برس اسپین کی ملکہٴ حسن بھی منتخب کی گئی تھیں۔ بنکاک میں تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے پونس نے کہا کہ کئی دہائیوں سے ٹرانس جینڈر خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے اور اُن کو خاص انداز میں معاشرتی دھارے سے علیحدہ کر کے کنارے لگانے کے لیے پلاننگ کے تحت ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
انجیلا پونس کا کہنا ہے کہ اُسے یقین ہے کہ ٹرانس خواتین بھی دوسری خواتین کی طرح ہر قسم کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اہل ہیں اور یہ یقینی طور پر اپنے حسن اور اپنی ذہانت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ مس یونیورس کے مقابلے میں شرکت کرنے پر ان کا کہنا ہے کہ انہیں اور ساری دنیا کی ٹرانس خواتین کو اُن کے مس یونیورس مقابلے میں شرکت کرنے پر فخر محسوس ہو گا اور یہ معاشرے کے دوسرے طبقوں میں برداشت کے عنصر کو پیدا بھی کرے گا۔
اپنے انٹرویو میں انجیلا پونس نے انتہائی دکھ سے کہا کہ وہ ایسی دنیا میں پیدا ہوئی ہے، جو حقیقت میں اُس کے لیے نہیں ہے اور اس میں انہیں شدید معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پونس کے مطابق ٹرانس جینڈر بچوں کو شدید ڈیپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور زندگی گزارنے کے لیے انتہائی نامساعد حالات دیکھنے پڑتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ اس وقت انجیلا پونس پر سب سے زیادہ شرطیں لگائی گئی ہیں کہ وہ بنکاک میں مس یونیورس کا تاج اپنے سر پر رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ پونس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ کامیابی کے بعد ٹرانس جینڈر خاندانوں اور بچوں کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہوئے اُن کی شاخت کے بحران کو ختم کرنے کی عملی کوششیں کریں گی۔
مس یونیورس کے مقابلوں کا اہتمام مس یونیورس آرگنائزیشن سالانہ بنیاد پر کرتی ہے۔ اس نے سن 2012 میں ٹرانس جینڈر خواتین کی مقابلوں میں شرکت پر پابندی ختم کی تھی۔ سترہ دسمبر کو مس یونیورس کا مقابلہ ایک سو نوے ممالک میں براہ راست نشر کیا جائے گا۔
حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lemel
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘