1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ اسکول دوبارہ کھولنے کے حق میں، فاؤچی کی تنبیہ مسترد

14 مئی 2020

امریکی صدر ماہرین کی اس رائے کے باوجود کہ بغیر مناسب اقدامات کے بندشوں میں نرمی کے خطرناک نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ اسکول اور کاروبار تیزی سے کھولنے کے حق میں ہیں۔

USA | Coronavirus | Donald Trump und Anthony Fauci
تصویر: Reuters/J. Roberts

عالمی سطح پر کورورنا وائرس سے متاثرین کی تعداد 43 لاکھ 45 ہزار سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جبکہ دو لاکھ 97 ہزار سے بھی زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

تازہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اب تک پندرہ لاکھ 47 ہزار سے زیادہ لوگ کووڈ 19 سے نجات پا کر صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں میں کسی بھی طرح کی نرمی بتدریج اور مرحلہ وار ہونی چاہیے اور تمام ممالک کو اب بھی ہائی الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی نے 16 مئی ہفتے کے روز سے سرحدوں پر موجودہ کنٹرول میں بعض نرمیوں کا فیصلہ کیا ہے لیکن متعدد ہمسایہ ممالک کے لیے بغیر روک ٹوک سرحد پار کرنے کی اجازت 15 جون کے بعد ہی ملنے کی توقع ہے۔

سینیئر حکام اور ماہرین کی تنبیہ کے باوجود امریکی صدر اسکول اور کاروبار فوری طور پر کھولنا چاہتے ہیں۔

جرمنی میں رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 933 مزید کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تصدیق ہوئی ہے اور اس طرح ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 72 ہزار 239 ہوگئی ہے۔ اسی دوران 89 مزید افراد اس بیماری سے ہلاک ہوئے ہیں اور اس طرح جرمنی میں اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سات ہزار 723 تک پہنچ گئی ہے۔

گزشتہ روز کے مقابلے میں انفیکشن کی شرح میں قدر اضافہ دیکھا گيا ہے جو گزشتہ روز 798 تھے جبکہ شرح اموات میں کمی آئی ہے جو 101 تھیں۔ اس دوران جرمن وزير صحت نے تمام ریاستوں سے نرسنگ اسٹاف کی عملی امداد کے لیے بونس دینے کی حمایت کرنے کو کہا ہے۔اس بارے میں جرمن پارلیمان آخری فیصلہ کرے گی تاہم طبّی عملے کو بونس دینے کی ہر جانب سے حمایت ہورہی ہے۔

ادھر فرانس میں بھی کووڈ 19 سے متاثرہ 83 مزید افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے اور اس طرح ملک میں کل اموات کی تعداد 27 ہزار 74 ہوگئی ہے۔ فرانس میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں تقریبا 70 مزید نئے کیسز سامنے آئے اور اب بھی تقریباً 25 ہزار متاثرین ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

ہلاکتوں کی فہرست میں اول نمبر پر امریکا ہے جہاں 80 ہزار سے زیادہ لوگ اب تک لقہ اجل بن چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں 33 ہزار سے بھی زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ اٹلی میں 31 ہزار 106 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اسپین میں 27 ہزار سے زیادہ افراد کی موت ہوچکی ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکا میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کووڈ 19 سے 1813 مزید اموات ہوئی ہیں اور اس طرح اب تک 84 ہزار 59 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ملک میں اس وقت 13 لاکھ نوئے ہزار کے قریب لوگ اس وائرس میں مبتلا ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے متعلق ایک اہم مشیر اور متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی کی جانب سے جلد بازی میں کاروبار کھولنے کے خطرناک نتائج پر مبنی بیانات ناقابل قبول ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہم اپنے ملک کو کھول رہے ہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کھل جائے، اسکول کھلنے جا رہے ہیں۔"

اس سے قبل ڈاکٹر فاؤچی نے امریکی سینٹ کی ایک اہم کمیٹی کے سامنے وڈیو لنِک کےذریعے پیش ہوتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر وبا کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو بیماری دوبارہ پھوٹ سکتی ہے، جس سے معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا اور لوگوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا میں کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی سرکاری تعداد یعنی اسی ہزار حتمی نہیں بلکہ یہ تعداد اس سے زائد ہو سکتی ہے۔

چین میں محمکہ صحت نے 13 مئی کو تین مزید کیسز کے سامنے آنے کی تصدیق کی ہے۔ اس وقت چین میں مجموعی طور پر 82 929 کیسز ہیں۔ چینی میڈیا کی خبروں کے مطابق گزشتہ ہفتے ووہان سٹی کی ایک ہی عمارت میں چھ افراد کے پازیٹیو پائے جانے کے بعد حکام ووہان سٹی کے تمام ایک کروڑ دس لاکھ رہائشیوں کا آئندہ دس روز کے دوران کووڈ ٹیسٹ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ لیکن ابھی تک حکام کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ آخر وہ ایسا دس روز کے اندر کس طرح کریں گے، کیونکہ اس مناسبت سے انہیں ہر روز دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا ٹیسٹ کرنا ہوگا۔ گزشتہ برس کے اواخر میں اسی شہر سے اس وبا کا آغآز ہوا تھا۔

لاطینی امریکی ملک میکسیکو میں 1862 مزید افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی اور اس طرح ملک میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے 40 ہزار مزید کیسز سامنے آئے ہیں۔ میکسیکو میں اب تک اس بیماری سے  4220 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ز ص/ ک م/ ایجنسیاں

سویڈن اور کورونا وائرس: لاک ڈاؤن کیوں نہ کیا؟

03:57

This browser does not support the video element.


 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں