’ٹرمپ افغانستان کے لیے نرم اور پاکستان کے لیے سخت گیر‘
عابد حسین مسعود سیف اللہ
22 جنوری 2018
ڈونلڈ ٹرمپ کا منصب صدارت پر اولین برس یقینی طور پر افغانستان کے لیے مثبت رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن کی انتظامیہ کی ناراضی و برہمی پاکستان کو سمیٹنا پڑی ہے۔
اشتہار
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں پاک امریکی تعلقات کا گراف بلند ہونے کے بجائے مسلسل نیچے جا رہا ہے اور اب امریکی امداد کی بندش نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سینیٹر راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دورِ صدارت کا پہلا سال پاکستان کے لیے مایوسی اور تناؤ سے بھرا ہوا ہے۔
راجہ ظفر الحق کا مزید کہنا ہے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی نے پاکستانیوں کے ذہنوں میں ایک عہد شکنی کا تاثر پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے امریکیوں کی دہشت گردی کی جنگ اور القاعدہ کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں مدد کی لیکن اس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایک اور سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان نے پاکستان اور امریکا کو مشترکہ طور پر خراب تعلقات کا ذمہ دار ٹھرایا۔ ان کا خیال ہے کہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کو ان تعلقات میں پیدا کشیدگی اور تناؤ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے حکومتی حلقے اس خرابی میں شریک ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں افغانستان کی جنگ ختم کرنے کی کوششیں ضرور کی گئی لیکن اُن کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔ حالانکہ اوباما کی جانب سے کہا گیا تھا کہ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بن چکی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری امریکی فوج واپس بلا لی جائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
منصب صدارت پر ایک نئے صدر کے براجمان ہونے سے سن 2016 میں خراب ہوتے امریکی افغان تعلقات میں بہتر آنے لگی اور پھر صدر ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی کو پیش کرتے ہوئے مجموعی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد نو ہزار سے بڑھا کر گیارہ ہزار کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان ایئر فورس کی خصوصی تربیت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینگ وُوڈرو ولسن سینٹر کے جنوب مشرقی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کو موجودہ پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرنے میں ایک برس سے زائد کا عرصہ لگا اور مستقبل کے حالات ہی طے کر سکیں گے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی خطے میں کیسے نتائج کی حامل ہو سکے گی۔