1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ٹرمپ افغانستان کے لیے نرم اور پاکستان کے لیے سخت گیر‘

عابد حسین مسعود سیف اللہ
22 جنوری 2018

ڈونلڈ ٹرمپ کا منصب صدارت پر اولین برس یقینی طور پر افغانستان کے لیے مثبت رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن کی انتظامیہ کی ناراضی و برہمی پاکستان کو سمیٹنا پڑی ہے۔

USA Ashraf Ghani und Donald Trump auf der UN Vollversammlung in New York
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں پاک امریکی تعلقات کا گراف بلند ہونے کے بجائے مسلسل نیچے جا رہا ہے اور اب امریکی امداد کی بندش نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سینیٹر راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دورِ صدارت کا پہلا سال پاکستان کے لیے مایوسی اور تناؤ سے بھرا ہوا ہے۔

پاکستان نے نیٹو سپلائی روٹ بند کیا تو امریکا کیا کرے گا؟

'ایشیا کو امریکا کی ضرورت ہے، ٹرمپ کی نہیں‘

میٹس اور اسٹولٹن برگ کی کابل آمد اور میزائل حملہ

’سخت پیغام‘ لے کر دو امریکی وزیر اسی ماہ پاکستان جائیں گے

راجہ ظفر الحق کا مزید کہنا ہے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی نے پاکستانیوں کے ذہنوں میں ایک عہد شکنی کا تاثر پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے امریکیوں کی دہشت گردی کی جنگ اور القاعدہ کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں مدد کی لیکن اس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایک اور سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان نے پاکستان اور امریکا کو مشترکہ طور پر خراب تعلقات کا ذمہ دار ٹھرایا۔ ان کا خیال ہے کہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کو ان تعلقات میں پیدا کشیدگی اور تناؤ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے حکومتی حلقے اس خرابی میں شریک ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ پینٹاگون کے اعلیٰ فوجی افسروں کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/Pool via CNP/MediaPunch/M. Wilson

ماہرین کا خیال ہے کہ سابق صدر باراک اوباما کے دور میں افغانستان کی جنگ ختم کرنے کی کوششیں ضرور کی گئی لیکن اُن کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔ حالانکہ اوباما کی جانب سے کہا گیا تھا کہ افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بن چکی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری امریکی فوج واپس بلا لی جائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

منصب صدارت پر ایک نئے صدر کے براجمان ہونے سے سن 2016 میں خراب ہوتے امریکی افغان تعلقات میں بہتر آنے لگی اور پھر صدر ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی کو پیش کرتے ہوئے مجموعی صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد نو ہزار سے بڑھا کر گیارہ ہزار کر دی۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان ایئر فورس کی خصوصی تربیت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینگ وُوڈرو ولسن سینٹر کے جنوب مشرقی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کو موجودہ پالیسی اور حکمت عملی مرتب کرنے میں ایک برس سے زائد کا عرصہ لگا اور مستقبل کے حالات ہی طے کر سکیں گے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی خطے میں کیسے نتائج کی حامل ہو سکے گی۔

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

02:29

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں