ٹرمپ اقوام متحدہ کو ’تباہ کرنے سے باز‘ رہیں، جرمن چانسلر
1 اکتوبر 2018
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں امریکی صدر کی تقریر کے بعد جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقوام متحدہ کی ’تباہی‘ سے خبردار کیا ہے۔
اشتہار
چانسلر انگیلا میرکل کا اتوار کے روز باویریا میں علاقائی انتخابی مہم کے دوران کہنا تھا، ’’میرے خیال میں کوئی نئی چیز تشکیل دیے بغیر کسی بنی ہوئی چیز کو تباہ کرنا انتہائی خطرناک عمل ہے۔‘‘
چانسلر میرکل کا اقوام متحدہ میں صدر ٹرمپ کی تقریر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’اقوام متحدہ پر حملہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
چانسلر میرکل کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ’وِن وِن سیچوایشن‘ سے ناواقف ہیں بلکہ وہ صرف اور صرف اپنی جیت کے متمنی رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی موجودہ پوزیشن سے عالمی مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ جرمنی کی خاتون چانسلر نے ٹرمپ کو اقوام متحدہ پر مزید ’حملے‘ کرنے سے بھی خبردار کیا ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر ٹرمپ نے تقریر کرتے ہوئے اس ادارے کی کارکردگی اور موجودگی پر ہی سوالیہ نشانہ اٹھا دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ نے ’عالمگیریت کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے قوم پرستانہ نظریے کو اپنایا ہے۔‘‘ میرکل کا کہنا تھا کہ جس وقت بہت سی چیزوں پر سوالیہ نشان اٹھا دیے جائیں تو وہ ’خطرناک وقت‘ ہوتا ہے۔
جرمن چانسلر امریکی صدر کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے کیمپ میں شامل ہو گئی ہیں۔ انہوں نے بھی امریکی صدر کی تقریر سے پہلے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آج ورلڈ آرڈر تیزی سے افراتفری کا شکار ہو رہا ہے۔‘‘
چانسلر میرکل کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عوام یورپی یونین پر پختہ یقین رکھیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یورپی یونین میں اصلاحات کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔
جرمن چانسلر کا یورپی یونین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’یورپ اپنی اقدار، اپنے موقف اور اپنے مفادات پر اسی وقت تک عمل پیرا رہ سکتا ہے، جب ہماری سلامتی اور خارجہ پالیسی ایک جیسی ہو گی۔‘‘
ا ا / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔