ٹرمپ انتظاميہ کے ايک اور سينئر رکن کا مستعفی ہونے کا فيصلہ
12 اکتوبر 2019
امريکی صدر کی اميگريشن کے حوالے سے سخت گير پاليسيوں کو عملی جامعہ پہنانے والے ايک سينئر اہلکار اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہيں۔ ليکن کيون ميکلينن انتظاميہ کے ايسے پہلے رکن نہيں، جو وائٹ ہاؤس سے عليحدگی اختيار کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Brandon
اشتہار
امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ کے ايک اور سينئر اہلکار مستعفی ہو رہے ہيں۔ محکمہ ہوم لينڈ سکيورٹی کے قائم مقام سيکرٹری کيون ميکلينن صرف چھ ماہ تک يہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اب استعفی دينے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ وائٹ ہاؤس کے ايک اہلکار نے اس کی تصديق کر دی ہے۔ ٹرمپ نے بھی اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا کہ ميکلينن اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنے اور نجی سيکٹر ميں ملازمت کے خواہاں ہيں اور اسی ليے وہ مستعفی ہو رہے ہيں۔
کيون ميکلينن صدر ٹرمپ کی اميگريشن کے حوالے سے سخت پاليسيوں اور اقدامات کو عملی جامعہ پہنانے کے عمل ميں کليدی کردار کے حامل رہے ہيں۔ وہ سرحدی معاملات ميں خاصا تجربہ رکھتے ہيں اور انہيں ايک ايسے فرد کے طور پر ديکھا جاتا ہے، جو اميگريشن سے متعلق مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔ ميکلينن ہی واشنگٹن انتظاميہ کی غير قانونی تارکين وطن اور ان کے بچوں کو عليحدہ کرنے کی متنازعہ پاليسی کے پيچھے تھے۔ کيون ميکلينن نے اس پروگرام کو بھی کافی وسعت دی، جس کے تحت سياسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر کارروائی کے دوران درخواست دہندگان کو ميکسيکو ميں رکھا گيا تھا۔ علاوہ ازيں سياسی پناہ اور بارڈر سکيورٹی کے حوالے سے انہوں نے وسطی امريکی ممالک کے ساتھ کئی معاہدوں کو حتمی شکل دی۔
کيون ميکلينن نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کو بتايا کہ وہ اپنی مرضی سے اور اپنی ہی شرائط پر منصب چھوڑ رہے ہيں۔ اپنے مختصر دور ميں میکلینن صدر ٹرمپ کے اميگريشن پر سخت نظرياتی ايجنڈے کو عملی جامعہ پہنانے کی وجہ سے ان کے کافی قريب تھےلیکن اسی دوران وہ ٹرمپ انتظاميہ ميں ايک خلا بھی محسوس کرتے رہے۔ در اصل امريکا ميں ہوم لينڈ سکيورٹی کا محکمہ ايک انتہائی اہم سرکاری دفتر سمجھا جاتا ہے اور اس کے ملازمين کی تعداد دو لاکھ چاليس ہزار سے زائد ہے۔ انتخابات کے دوران سکيورٹی، سائبر سکيورٹی، قدرتی آفات سے نمٹنا اور خفيہ سروس سے منسلک معاملات اس محکمے کے زمرے ميں آتے ہيں۔ تاہم موجودہ انتظاميہ کے دور ميں ہوم لينڈ سکيورٹی کا کليدی کام صرف اميگريشن تک محدود رہ گيا ہے۔ امکاناً يہی وجہ ہے کہ کيون ميکلينن اور ان کی قابليتوں سے واقف چند ديگر اہلکاروں کی رائے ہے کہ شايد ان کی قابلیتیں ضائع ہو رہی ہيں۔
اب تک واشنگٹن انتظاميہ نے ان کے کسی متبادل کا اعلان نہيں کيا ہے۔ يہ پيش رفت انتظاميہ ميں ايک اور اعلی سطحی پوزيشن خالی کر دے گی، جس کا اثر نہ صرف اميگريشن سے متعلق امور پر پڑے گا بلکہ رياستی سطح کے انتخابات ميں سلامتی بھی اس سے متاثر ہو گی۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔