ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مظاہرین کے حقوق کی پامالی کا مقدمہ
5 جون 2020
امریکا میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ٹرمپ انتظامیہ پر مظاہرین کے حقوق کی پامالی اور انہیں زبردستی منشتر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کے حکام کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں انسانی حقوق کی معروف تنظیم 'امیریکن سول لیبرٹی یونین' (اے سی ایل یو) نے ٹرمپ انتظامیہ پر مظاہرین کے حقوق کا خیال نہ رکھنے اور انہیں زبردستی منتشر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس ہفتے کے اوائل میں واشنگٹن کے لفاٹے پارک میں حکام نے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا بے جا استعمال کیا جو پر امن احتجاجی مظاہرین کے حقوق کی صریحا ًخلاف ورزی ہے۔
واشنگٹن کے لفاٹے پارک میں جس وقت بڑی تعداد میں مظاہرین جمع تھے اسی دوران مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سے سینٹ جارج چرچ جانا چاہتے تھے اور اس کے لیے حکام نے راستے کو خالی کرانے کا حکام دیا۔ سکیورٹی فورسز نے پر امن احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ حکام نے پیپر بالز سمیت آنسو گیس کے شیل داغے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیم اے سی ایل یو نے بلا اشتعال اس کارروائی کو ''مظاہرین پر مجرمانہ حملے"سے تعبیر کیا ہے۔عدالت میں دائر کردہ درخواست میں امریکا کے اٹارنی جنرل ولیئم بار اور وائٹ ہاؤس کے دیگر سینئر حکام پر غیر قانونی کارروائی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ عرضی میں اس کارروائی کو '' مظاہرین کے ہجوم پر بلا اشتعال مربوط حملہ بتایا گیا ہے۔''
اے سی ایل یو کے قانونی مشیر اسکاٹ مائیکل مین نے اس کارروائی پر اپنے رد عمل میں کہا، ''چونکہ صدر مظاہرین کے خیالات سے متفق نہیں ہیں اس لیے ان پر بے شرم، غیر آئینی اور بلا اشتعال مجرمانہ حملے نے ہمارے ملک کے آئین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔''
اس روز صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے سینٹ جارج کا دورہ کیا تھا اور ہاتھ میں بائبل پکڑ تصویر کھنچوائی تھی۔ لیکن چرچ کے پادریوں کے سربراہ نے ٹرمپ کے چرچ کے اس دورے کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے چرچ کی عمارت اور مقدس بائبل کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا ہے۔
سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف تمام امریکی ریاستوں میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان مظاہروں سے نمٹنے کے لیے جو حکمت علی اپنائی اس پر موجودہ اور سابق افسران کی جانب سے شدید تنقید ہوئی ہے۔ خاص طور چرچ جانے کے لیے انہوں نے پرامن مظاہرین کے خلاف جس کارروائی کا حکم دیا، اس پر سبھی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی ہوئی ہے۔
لفاٹے پارک میں کارروائی سے عین قبل انہوں نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے فوج تعینات کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ان کے اس موقف پر بھی شدید نکتہ چینی ہوئی ہے اور امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولین سمیت کئی فوجی جرنیلوں نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
اس حوالے سے ٹرمپ کی حکومت میں شامل سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فوج اور سول سوسائٹی کے درمیان خواہ مخواہ محاذ آرائی پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''میں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ امریکی فوجیوں کو حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے آئینی حقوق پامال کریں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جس انداز سے نسلی امتیاز کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اس پر انہیں ''غصہ اور حیرت'' ہے۔
ص ز / ج ا (اے ایف پی اے پی)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔