ٹرمپ اور اُن کی ملاقات: حقیقی پیش رفت ضروری ہے، تجزیہ کار
19 جنوری 2019
اندازوں کے مطابق اگلے ہفتوں کے دوران امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان دوسری ملاقات ہو سکتی ہے۔ قبل ازیں یہ دونوں رہنما گزشتہ برس سنگا پور میں ملاقات کر چکے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان دوسری سمٹ امکاناً فروری کے اختتام پر ہو سکتی ہے۔ اس ملاقات کا امکان شمالی کوریائی وزیر خارجہ کم یونگ چول کی جمعہ اٹھارہ جنوری کو امریکی صدر سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ اُدھر ویتنام کے وزیراعظم نے اس ملاقات کی میزبانی کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ ٹرمپ اور اُن کی دوسری ملاقات کی تاریخ اور مقام کا تعین ابھی نہیں کیا گیا ہے۔
مختلف تجزیہ کاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی لیڈر چیئرمین کم جونگ اُن کی اولین ملاقات تاریخی ضرور تھی لیکن اس کے بعد شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری یا انہیں تلف کرنے کی جانب مثبت اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ’ریالٹی ٹیلی وژن‘ چینل کے تجزیہ کاروں کے مطابق دوسری ملاقات سے کیا ایسا ممکن ہے کہ شمالی کوریا جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کا آغاز کر دے گا۔
شمالی کوریائی رہنما اور امریکی صدر کی پہلی ملاقات کو امریکا اور جزیرہ نما کوریا کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور تناؤ کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے بھی یہ ملاقات اہم تھی کہ امریکی افواج بھی جنوبی کوریا میں متعین ہیں اور ایک طرح سے شمالی کوریا کو امریکا کا حریف بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
سنگاپور میں ملاقات کے بعد ہونے والے سمجھوتے کے بعد کسی قسم کی عملی پیش رفت سامنے نہبیں آئی۔ شمالی کوریا کو بہت سارے تحفظات ہیں اور امریکا اس ملک پر عائد پابندیوں کے خاتمے سے پہلے کسی مثبت پیش رفت کا تقاضا کرتا ہے۔ چیئرمین کم جونگ اُن کی قیادت میں قائم حکومت کی جانب سے یہ بارہا سامنے آیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کے وعدے پر قائم ہیں لیکن پہلے امریکا عائد پابندیوں کو نرم کرے۔ اس دوران اس کمیونسٹ ملک کی حکومت نے امریکی وزیر خارجہ کے دورے پر تنقید بھی کی تھی۔
ناقدین کا یہ واضح طور پر کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے ابھی تک کوئی ’مضوبط ارادہ‘ ظاہر نہیں کیا اور ابھی تک وہ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے سے دستبرداری کے کسی ممکنہ پلان کو بھی سامنے نہیں لایا۔ امریکا شمالی کوریا پر اپنے دباؤ کو کم کرنے پر بھی تیار نہیں۔ تجزیہ کاروں نے امریکا اور شمالی کوریا کے لیڈروں کی اگلی ملاقات میں مثبت پیش رفت اور عملی اقدامات کو طے کرنا ازحد ضروری قرار دیا ہے۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔