ٹرمپ اور ایردوآن کا رابطہ، ادلب بحران کے خاتمے پر غور
15 فروری 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں شامی صوبہ ادلب میں جاری بحران کے بلاتاخیر خاتمے پر مشاورت کی گئی۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ترک اور امریکی صدور کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت میں شامی صوبہ ادلب میں جاری بحران کے جلد از جلد خاتمے کے ممکنہ طریقوں پر غور کیا گیا ہے۔ اس بیان کے مطابق صدر ایردوآن اور صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ دمشق حکومت کی طرف سے ادلب میں کیے جانے والے تازہ حملے ناقابل قبول ہیں۔
دوسری طرف جرمن شہر میونخ میں جاری بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس میں شریک ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو نے میڈیا کو بتایا کہ صدر ٹرمپ اور صدر ایردوآن کے درمیان ہونے والی بات چیت میں امریکا کے مشرق وُسطیٰ کے امن منصوبے پر بھی بات ہوئی۔
اس سے قبل ترک وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھی شامی صوبہ ادلب میں خراب ہوتی ہوئی صورتحال مرکزی موضوع رہی۔
ترک وزیر خارجہ چاؤش اولو کا کہنا تھا کہ شام کے معاملے پر ترکی اور روس کے اختلاف سے ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ترک براڈکاسٹر این ٹی وی نے مولود چاؤش اولو کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ادلب کی صورتحال سے ایس 400 میزائلوں کی خرید کا معاہدہ متاثر نہیں ہو گا۔
تین روزہ میونخ سکیورٹی کانفرنس اتوار 16 فروری کو ختم ہو رہی ہے۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔