امریکہ اور چین کے درمیان محصولات میں کمی کا معاہدہ
30 اکتوبر 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو ''بہت بڑی کامیابی‘‘ قرار دیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت امریکہ چین پر عائد محصولات کو 57 فیصد سے کم کر کے 47 فیصد کرے گا۔ بدلے میں چین نایاب معدنیات کی برآمد جاری رکھے گا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ چین ''بڑی مقدار میں‘‘ امریکی سویابین خریدے گا اور فینٹینیل کی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ یہ معاہدہ کم از کم ایک سال تک نافذ العمل رہے گا۔
جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ہونے والے اے پی ای سی اجلاس کے موقع پر ہونے والی دو گھنٹے کی ملاقات 2019 کے بعد دونوں رہنماؤں کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔
ٹرمپ نے شی جن پنگ کو ''ایک طاقتور ملک کے بااثر رہنما‘‘ کے طور پر سراہا اور کہا کہ ملاقات کے دوران کئی معاملات ''حتمی مرحلے‘‘ تک پہنچ گئے۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ دونوں رہنما ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کریں گے۔
ٹرمپ نے ایئر فورس ون پر صحافیوں کو بتایا، ''میں اپریل میں چین جاؤں گا، اور وہ اس کے بعد کسی وقت یہاں آئیں گے، چاہے وہ فلوریڈا، پام بیچ یا واشنگٹن ڈی سی ہو۔‘‘
امریکی سویابین کسانوں کو بڑی راحت
امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں امریکی زرعی شعبہ بھی زد میں آ یا ہوا ہے۔
سویابین کے کاشتکار سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ 2025 کی پہلی ششماہی میں چین کے ساتھ تجارت میں 2024 کی اسی مدت کے مقابلے میں 3 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔
روایتی طور پر چین امریکی سویابین کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے، جس نے 2024 میں کل پیداوار کا تقریباً نصف خریدا تھا۔
تاہم، چین کی جانب سے سویابین پر جوابی محصولات لگائے جانے کے بعد مئی سے امریکہ کی سویابین فروخت تقریباً بند ہو گئی۔
برازیل اور ارجنٹینا نے فوری طور پر یہ خلا پُر کرنے کی کوشش کی۔
امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے گزشتہ ہفتے چینی حکام کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے دوران سویابین کے کسانوں کے خدشات کے موضوع پر براہِ راست بات کی تھی۔
انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''جب چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا اعلان عوام کے سامنے آئے گا تو ہمارے سویابین کسان بہت خوش ہوں گے، نہ صرف اس سیزن کے لیے بلکہ آنے والے کئی سالوں تک کے لیے بھی۔‘‘
30 سال بعد پہلی بار امریکی جوہری تجربات کا حکم
شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے بوسان پہنچنے سے کچھ دیر قبل، ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات میں اضافہ کریں گے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے محکمہ دفاع کو ہدایت دی ہے کہ ''فوراً‘‘ جوہری ہتھیاروں کے تجربات شروع کیے جائیں کیونکہ ''دیگر ممالک بھی تجربات کر رہے ہیں‘‘۔
یہ بیان روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بدھ کے روز اس اعلان کے بعد آیا کہ روس نے "پوسائیڈن" نامی جوہری توانائی سے چلنے والے سپر تارپیڈو کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ہتھیار، جو ایٹمی وارہیڈ سے لیس ہو سکتا ہے، ساحلی علاقوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چند دن پہلے، روس نے جوہری صلاحیت رکھنے والے ایک نئے 'بیوریویستنک‘ کروز میزائل کا بھی تجربہ کیا اور ایٹمی مشقیں کیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ روس کے پاس امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، ''چین بہت پیچھے ہے، لیکن اگلے پانچ سالوں میں وہ قریب پہنچ جائے گا۔‘‘
ابھی تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا کہ امریکہ ایٹمی دھماکوں کی آزمائش کرے گا۔
امریکہ نے آخری بار 1992 میں نیواڈا میں زیرِ زمین جوہری تجربہ کیا تھا۔ 1945 سے 1992 تک، امریکہ نے 1,030 جوہری تجربات کیے، جو کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہیں۔
ادارت: عدنان اسحاق