ٹرمپ اور پوٹن کی ملاقات: امريکی سياستدان و انٹيليجنس نالاں
17 جولائی 2018
امريکی صدر کی اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات پر امريکا ميں داخلی سطح پر کافی سخت رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ انٹيليجنس اہلکاروں اور ری پبلکن پارٹی کے چند سينئر ارکان نے صدر کے رويے کو ’شرمناک‘ قرار ديا ہے۔
اشتہار
ری پبلکن پارٹی کے سينيٹر جان مککين نے کہا ہے کہ گزشتہ صدارتی انتخابات ميں مبينہ روسی مداخلت کے بارے ميں پوٹن کی ترديد اور صدر ٹرمپ کی جانب سے اسے مان لينا امريکی صدور کی کاکردگی ميں ايک تاريخی لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے اسے نچلی ترين سطح قرار ديتے ہوئے يہ بھی کہا کہ فن لينڈ کے دارالحکومت ہيلسنکی ميں پير سولہ جولائی ہونے والی يہ سمٹ ايک ’افسوس ناک غلطی‘ ثابت ہوئی۔ سينيٹر مککين نے اپنے بيان ميں کہا، ’’ہيلسنکی ميں منعقدہ پريس کانفرنس ميں ٹرمپ کی کارکردگی، ميری يادداشت ميں کسی امريکی صدر کی بد ترين کارکردگی تھی۔‘‘ سينيٹر مککين نے اپنی تنقيد ميں بالخصوص اس بات کی طرف اشارہ کيا کہ ٹرمپ ايک ’آمر‘ کی تمام تر باتيں تسليم کر رہے ہيں۔
امريکا ميں ڈائريکٹر آف نيشنل انٹيليجنس ڈين کوٹس نے کہا ہے کہ دو سال قبل منعقدہ صدارتی اليکشن ميں روسی مداخلت کے معاملے پر امريکی ايجنسياں بہت واضح موقف رکھتی ہيں اور يہ حقائق پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس امريکا ميں جمہوريت کو نقصان پہنچانے کے ليے کوشاں ہے۔
اسی طرح ری پبلکن جماعت کے ايک اور سينئر رکن پال رائن نے فاکس نيوز پر کہا کہ صدر کو يہ تسليم کرنا ہو گا کہ روس حليف ملک نہيں،’’دونوں ملکوں کے مابين اخلاقی سطح پر کوئی یکسانيت نہيں اور روس امريکی اقدار کے خلاف ہے،‘‘ رائن نے کہا۔ ری پبلکن سينيٹر لنڈسے گراہم کے بقول مداخلت کی رپورٹوں کو مسترد کر ديے جانے کو تسليم کر لينا، کمزوری کی نشانی ہے۔
اس موضوع پر امريکا ميں اپوزيشن جماعت ڈيموکريٹس کے سياست دانوں نے بھی کھل کر اور کافی سخت تنقيد کی۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات کے میں نرمی اختیار کرنے کے حوالے سے تمام تر تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کا کام صرف ماضی سے ہی نمٹنا نہیں ہے۔ ٹرمپ کے مطابق وہ مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
جرمن وزارت خارجہ نے ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات کا خیرمقدم کرتے ہوئے مزید ایسے اقدامات جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔
امریکی صدر کے دور صدارت کا پہلا سال، چند یادگار لمحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ پہلی بار صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کئی ایسے متنازعہ بیانات اور فیصلے سامنے آئے جو بلا شبہ یادگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/E. Vucci
مسلم ممالک کے خلاف امتیازی سلوک اور عدالتی کارروائیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اچانک سات مسلم ممالک کے شہریوں کا 90 روز کے لیے جبکہ تمام ممالک سے مہاجرت کرنے والوں پر 120 دن کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، جسے بعد میں ملکی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Jones
وفاقی تحقيقاتی ادارے کے سربراہ کی اچانک معطلی
نو مئی کو اچانک امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ جیمز کومی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے لیے روس کی مدد لی گئی تھی یا نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Somodevilla
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے اخراج کا فیصلہ
یکم جون 2017 کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے یعنی پیرس معاہدےسے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم اس ماہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چند من مانی شرائط پوری کيے جانے کی صورت میں واپس اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی امریکی دھمکی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ شدید کشیدہ ہوگئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
ٹیکس اصلاحات کا نفاذ
امریکی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی کا اصلاحاتی بل بھی صدر ٹڑمپ کے دور صدارت میں نافذ کيا گيا۔ یہ ٹیکس کے نظام میں 1986ء کے بعد کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاحات تھیں۔