امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے سابق رہنماؤں کو حاصل مخصوص استحقاق واپس لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ متاثرہ تمام امریکی شخصیات ڈونلڈ ٹرمپ کی ناقد ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ چند اہم شخصیات کو حاصل ’سکیورٹی کلئیرنس‘ واپس لینا چاہتے ہیں۔ صدارتی ترجمان سارہ سینڈرز کے مطابق اس حوالے سے جائزہ لینے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جن اہم رہنماؤں کو حاصل خصوصی درجہ واپس لینے کی بات کی جا رہی ہے، ان میں غیر ملکی انٹیلی جنس سروس سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان برینن، قومی خفیہ ادارے کے سابق ڈائریکٹر جیمز کلیپر، فیڈرل پولیس ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کامی، غیر ملکی انٹیلی جنس سروس این ایس اے کے سابق سربراہ مائیکل ہائیڈن، ایف بی آئی کے سابق نائب سربراہ اینڈریو مک کیب اور قومی سلامتی کی سابق مشیر سوزان رائس شامل ہیں۔
امریکا میں سکیورٹی، قومی سلامتی اور خفیہ اداروں کے زیادہ تر اہلکاروں اور اہم رہنماوں کو اپنے عہدے چھوڑنے کے بعد بھی ’سکیورٹی کلیئرنس‘ حاصل رہتی ہے۔ اس طرح ایسے افراد اپنی ملازمت کے بعد بھی اپنے اداروں کے لیے مشیر کے طور پر کام کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان سے ’سکیورٹی کلئیرنس‘ کا درجہ واپس لے لیا جائے تو پھر یہ مزید کام بھی نہیں کر سکتے۔ اسی ’سکیورٹی کلئیرنس‘ کی وجہ سے ایسے افراد کو ملازمت کے بعد بھی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل رہتی ہے۔
’’ناقص الزامات‘‘
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کے پیچھے یہ الزامات ہیں کہ ان افراد نے ٹرمپ اور روس کے حوالے سے ’ناقص الزامات‘ عائد کیے تھے۔ صدارتی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان افراد نے ’سکیورٹی کلئیرنس‘ کو ’دولت جمع کرنے‘ کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ ان افراد نے خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرتے ہوئے دولت کس طریقے سے جمع کی ہے؟
صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے ناقدین کو سزا نہیں دینا چاہتے اور اس الزام میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، جن افراد سے ’سکیورٹی کلئیرنس‘ واپس لینے کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں سے دو کے پاس پہلے ہی یہ درجہ موجود نہیں ہے۔ مک کیب اور کامی کو عہدوں سے ہٹانے کے بعد ہی ان سے یہ درجہ واپس لے لیا گیا تھا۔ دریں اثناء کلیپر نے ٹرمپ کے ان اقدامات کو ’انتہائی تنگ نظری‘ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔