1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ یا ہیرس: چین کس کا حامی؟

2 نومبر 2024

انتخابی مہم کے دوران ڈیموکریٹ اور ریپبلکن امیدواروں کے درمیان چین پر اقتصادی اور عسکری دباؤ کے تسلسل پر ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسے میں چین کس امیدوار کی کامیابی کو اپنے لیے موزوں سمجھتا ہے؟

چینی صدر شی جن پنگ
چین اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک مسابقت انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گیتصویر: Yomiuri Shimbun/AP/picture alliance

فی الحال یہ واضح نہیں کہ پانچ نومبر کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ڈیموکریٹ امیدوار اور موجودہ نائب صدر کملا ہیرس چین کے حوالے سے کیا حکمت عملی اپنائیں گی؟ تاہم یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی حکمت عملی بھی ان کے پیشرو صدر جو بائیڈن سے ہم آہنگ ہی ہو گی۔ البتہ، ہیرس اپنی ترجیحات یا نقطہ نظر میں کچھ معمولی تبدیلیاں بھی کر سکتی ہیں۔

ماہرین کا اسی صورتحال کے پیش نظر کہنا ہے کہ چین کے لیے یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ جنوری 2025 میں کون امریکی صدارت کا منصب سنبھالے گا۔

بیجنگ میں رینمن یونیورسٹی آف چائنا کے مرکز برائے امریکی مطالعات کے نائب ڈائریکٹر دیاؤ دامینگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک مسابقت انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گی۔

چین کے خلاف سخت حمکت عملی کا تسلسل

انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اور ہیرس دونوں نے ہی ایشیائی خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے اور تائیوان کے خلاف چینی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

وال اسٹریٹ جرنل کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو چین تائیوان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچے گا کیونکہ صدر شی جن پنگ ان کی شخصیت اور انداز سے واقف ہیں۔

ٹرمپ نے چین سے آنے والے اشیاء پر 60 فیصد یا اس سے زائد کی محصولات عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong

ٹرمپ نے معاشی محاذ پر تقریباً تمام ممالک کی درآمدات پر 10 سے 20 فیصد تک کی جامع محصولات جبکہ چین سے آنے والے اشیاء پر 60 فیصد یا اس سے زائد کی محصولات عائد کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔

ان کا دعوٰی ہے کہ ان اقدامات سے امریکی مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو گا۔

دیاؤ دامینگ کے مطابق، "اگر وہ واقعی یہ محصولات عائد کرتے ہیں، تو چین یقینی طور پر اس کے جواب میں اقدامات کرے گا۔"

ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ بائیڈن کے ایجنڈے کو اپنی مخصوص ترجیحات کے مطابق جاری رکھیں گے، جو کہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔‘‘

ہیرس کی خارجہ پالیسی غیر واضح

انتخابی مہم کے دوران کملا ہیرس کی جانب سے چین کے حوالے سے کی جانے والی محدود گفتگو میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ وہ عالمی سطح پر چین کے مقابلے میں امریکہ کا اثر و رسوخ  برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی۔

دیاؤ کہتے ہیں کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ صدارت ملنے کی صورت میں کملا ہیرس چین کے حوالے سے کیا اقدامات کریں گی؟

 ان سے یہ بھی توقع ہے کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی عائد کردہ پالیسیوں کو برقرار رکھیں گی، جس میں چینی مصنوعات پر محصولات عائد کرنا اور اہم سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات شامل ہیں۔

کملا ہیرس سے یہ توقع ہے کہ کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی عائد کردہ پالیسیوں کو برقرار رکھیں گیتصویر: Kent Nishimura/Getty Images

رواں برس ستمبر میں صدر بائیڈن نے کچھ چینی ساختہ مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کرتے ہوئے برقی گاڑیوں پر محصول کی شرح 100 فیصد تک بڑھا دی تھی۔ یورپی یونین کی جانب سے بھی کچھ ایسے ہی اقدامات کیے جانے کے بعد بیجنگ نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر بائیڈن نے چین کے ساتھ رابطے بحال کرنے کی کوشش بھی کی۔ انہوں نے سن 2023 میں کیلیفورنیا میں ایک سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر شی جن پنگ کی میزبانی بھی کی۔

ستمبر کے دوران سنگاپور میں شنگریلا سکیورٹی سمٹ کے دوران امریکہ اور چین کی اعلٰی فوجی قیادت کے درمیان بات چیت ہوئی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھلا رکھنا اور تنازعات کے حل کے لیے پرامن راستہ اختیار کرنا تھا۔

بائیڈن انتظامیہ نے فلپائن، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات اور شراکت داری کو بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

بیجنگ کی جانب سے ٹرمپ کی ممکنہ حمایت

چینی تجزیہ کار اور بیجنگ کی سنگھوا یونیورسٹی کے سابق لیکچرر وو چیانگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی چین کے لیے فائدہ مند ہو گی، کیونکہ یہ امریکی جمہوریت کے اندر گہرے اختلافات کی علامت ہو گی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''یورپ اور دیگر عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے نتیجے میں، امریکہ عالمی سطح پر ایک مرتبہ پھر تنہائی کا شکار ہو جائے گا، جیسا کہ اس سے قبل ٹرمپ کے دور صدارت میں دیکھا گیا تھا۔‘‘

ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی امریکی جمہوریت کے اندر گہرے اختلافات کی علامت ہو گیتصویر: picture-alliance/AP/TopPhoto

سابق صدر نے امریکی مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کئی بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری بھی اختیار کر لی تھی۔

ٹرمپ نے امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو ایک تجارتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے، یورپ میں نیٹو اور ایشیا میں امریکی اتحادیوں، جیسے جنوبی کوریا اور جاپان، کی طرف سے دفاع میں مزید تعاون نہ کرنے پر اپنی حمایت واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔

تاہم اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب کی نان ریزیڈنٹ فیلو ایلزبتھ فرائینڈ لارس کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد جغرافیائی منظر نامہ کافی غیر مستحکم ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے خارجہ پالیسی کے مشیروں کی جانب سے بھی ان پر دباؤ ہوگا کہ وہ امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔

کیا ہیرس چین کے ساتھ تعلقات میں نرم رویہ اختیار کریں گی؟

لارس کے مطابق چینی رہنماؤں کے لیے ہیرس کی فتح خارجہ اور دفاعی پالیسی کے تناظر میں اہم ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ممکنہ طور پر چین کے ساتھ تعلقات میں زیادہ نرم رویہ اپنائیں گی، جیسا کہ ٹرمپ کے علاوہ ماضی کے صدور نے کیا۔

تائیوان کے معاملے پر بھی نائب صدر کملا ہیرس بائیڈن کے مقابلے میں تائیوان کی فوجی حمایت کا کھل کر اظہار کرنے سے محتاط نظر آتی ہیں۔

لارس کہتی ہیں کہ اگر وہ چینی کیونسٹ پارٹی کی نمائندگی کر رہی ہوں تو وہ اس شخص کو ترجیح دیتیں، جو مذاکرات کے لیے آمادہ ہو۔

یوخن لی (ح ف / ع ا)

امریکہ چین سے راہیں جدا کیوں کرنا چاہتا ہے؟

01:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں