ٹرمپ تو کسی جواب کے قابل بھی نہیں، ایرانی سپریم لیڈر
13 جون 2019
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام لے کر ایران پہنچنے والے جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے سے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کا پیغام جواب کے قابل بھی نہیں ہے۔
اشتہار
جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے ایک ایسی صورت حال میں ایران کا دورہ کر رہے ہیں، جب امریکا اور تہران حکومت کے درمیان شدید کشیدگی ہے اور ٹھیک اس دورے کے وقت خلیج عمان میں دو آئل ٹینکروں پر حملے کے بعد یہ صورت حال اور بھی پیچیدگی اختیار کر گئی ہے۔
ان تازہ حملوں کی وجہ سے خدشات ہیں کہ امریکا اور ایران کے درمیان کم از کم الفاظ کی جنگ میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جولائی سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ایران کے خلاف سخت ترین پابندیوں کا دوبارہ نفاذ کر دیا گیا تھا۔
جمعرات کے روز حملے کا نشانہ بننے والے دو تیل بردار بحری جہازوں میں سے ایک جاپانی تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس حملے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب جاپانی وزیر اعظم تہران کے دورے پر ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ ماہ تک جاپان ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار تھا، تاہم واشنگٹن حکومت نے ایرانی تیل خریدنے کی چھوٹ ختم کرتے ہوئے تمام ممالک کو پابند کر دیا تھا کہ وہ ایرانی تیل خریدنے سے باز رہیں۔ جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے اپنے دورہ ایران میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک پیغام بھی ساتھ لائے تھے، تاہم ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے اسے مسترد کر دیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق خامنہ ای نے شینزو آبے سے کہا، ''میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ اس قابل ہیں کہ ان سے پیغامات کا تبادلہ کیا جائے۔ اس لیے میرے پاس ان کے لیے کوئی جواب نہیں۔ نہ اب، نہ مستقبل میں۔‘‘
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔
تصویر: Reuters/Official Khamenei website
12 تصاویر1 | 12
دوسری جانب یورپ اور ایشیا کے امریکی اتحادی ممالک کی جانب سے امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر شدید تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ ان ممالک کو خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی کسی مسلح تنازعے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کے بعد شینزو آبے نے بھی خبردار کیا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ نادانستگی میں بھی تشدد کی جانب جا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان اسی کشیدگی کے تناظر میں امریکا نے حالیہ کچھ عرصے میں خطے میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ بھی کر دیا ہے، جب کہ اس کا ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی خلیج فارس میں تعینات کیا جا چکا ہے۔ امریکا کا الزام ہے کہ تہران حکومت تیل بردار بحری جہازوں پر حملہ کر کے خلیج فارس سے تیل کی فراہمی کا راستہ متاثر کرنا چاہتی ہے۔ تاہم ایران نے ان الزامات کی بھرپور تردید کی ہے۔ امریکا کہہ چکا ہے کہ کسی بھی تیل بردار جہاز پر حملہ ایران کی جانب سے دانستہ اشتعال انگیزی سمجھا جائے گا اور اس کا جواب دیا جائے گا۔