ٹرمپ جوہری ڈیل پر قائم رہیں ورنہ ’نتائج شدید‘، ایرانی صدر
24 اپریل 2018
ایرانی صدر حسن روحانی نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے اس پر کاربند رہیں، ورنہ اس کے ’نتائج شدید‘ برآمد ہوں گے۔
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے منگل چوبیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکا کو اس ڈیل پر قائم رہنا چاہیے، جو تہران اور امریکا سمیت متعدد عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پائی تھی۔ لیکن اگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا، تو اس کے نتائج ’بہت شدید‘ ہوں گے۔
امریکی صدر ٹرمپ متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے پیش رو باراک اوباما کے دور صدارت میں طے پانے والا یہ معاہدہ امریکا اور اس کے مفادات کے لیے اچھا نہیں ہے اور وہ واشنگٹن کے اس ڈیل سے دستبردار ہونے پر غور کر رہے ہیں۔
اس کے برعکس امریکا کے کئی یورپی اتحادی، جن میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں اپنی سیاسی اور سفارتی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اس بین الاقوامی جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کا فیصلہ نہ کرے۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ یورپ میں واشنگٹن کے بڑے اتحادی اور اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک سے یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ وہ 12 مئی تک اس معاہدے میں، خود صدر ٹرمپ کے بقول، پائی جانے والی ’’شدید خامیوں‘‘ کا ازالہ کریں، ورنہ ایران پر عائد اور اب تک معطل کردہ امریکی اقتصادی پابندیاں بحال کر دی جائیں گی۔
اس معاملے میں امریکا سیاسی طور پر بالکل اکیلا ہے کیونکہ اس معاہدے پر دستخط کرنے والی دیگر طاقتیں، یعنی روس، چین، جرمنی، برطانیہ او فرانس کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اس ڈیل اور اس پر عمل درآمد کو آئندہ بھی اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
ایران اسی ڈیل کے تحت اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر تیار ہوا تھا اور اسی معاہدے کے نتیجے میں ایران کے خلاف عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں زیادہ تر اٹھا لی گئی تھیں۔
اس تناظر میں ایرانی صدر حسن روحانی نے آج منگل کے روز کہا، ’’اگر کسی نے اس معاہدے کے حوالے سے دھوکا دہی کی کوشش کی، تو اسے یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ اسے ایسے کسی بھی اقدام کے شدید نتائج بھگتا ہوں گے۔‘‘ صدر روحانی نے یہ بات ایرانی شہر تبریز میں ہزارہا شہریوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا، ’’ایران ہر طرح کی ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
ایرانی خواتین کا حجاب کے خلاف انوکھا احتجاج
ایرانی سوشل میڈیا پر کئی ایرانی خواتین نے اپنی ایسی تصاویر پوسٹ کیں، جن میں وہ حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر دکھائی دے رہی ہیں۔
تصویر: privat
یہ ایرانی خواتین کسی بھی عوامی جگہ پر اپنا حجاب سر سے اتار کر ہوا میں لہرا دیتی ہیں۔
تصویر: picture alliance /abaca
حجاب کے خاتمے کی مہم گزشتہ برس دسمبر سے شدت اختیار کر چکی ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
اس مہم کے ذریعے حکومت سے لازمی حجاب کے قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے سر ڈھانپنا اور لمبا کوٹ یا عبایا پہننا لازمی ہے۔
تصویر: privat
اس قانون کی خلاف ورزی پر کسی بھی خاتون یا لڑکی کو ہفتوں جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: privat
ایرانی حکام کے مطابق یہ ’پراپیگنڈا‘ غیر ممالک میں مقیم ایرانیوں نے شروع کیا۔
تصویر: privat
ایران میں ایسی ’بے حجاب‘ خواتین کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: privat
صدر روحانی کا کہنا ہے کہ عوام کی طرف سے تنقید نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔
تصویر: privat
صدر روحانی نے ایک سرکاری رپورٹ بھی عام کر دی، جس کے حجاب کے قانون کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: privat
اس رپورٹ کے مطابق قریب پچاس فیصد ایرانی عوام لازمی حجاب کے قانون کی حمایت نہیں کرتے۔
تصویر: privat
10 تصاویر1 | 10
دیگر اہم عالمی امور کے علاوہ عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ اسی جوہری معاہدے کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کے لیے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اس وقت امریکا کے ایک دورے پر ہیں، جہاں وہ آج ہی واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ امریکا اس جوہری معاہدے سے دستبردار نہ ہو۔
اسی بارے میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کل پیر کے روز یہ بھی کہہ دیا تھا کہ روس اور چین مل کر ان امریکی کوششوں کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے، جن سے ایرانی جوہری معاہدے کے لیے خطرات پیدا ہو سکیں۔
م م / ا ا / روئٹرز
ایران کے صدارتی انتخابات کے چھ امیدوار
شوریٰ نگہبان نے چھ امیدواروں کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔ یہ ادارہ امیدواروں کی اسلامی نظام کے ساتھ وفاداری کو جانچتا ہے۔ اس بار صدر کے عہدے کے لیے 1636 امیدواروں نے درخواست دی تھی۔
حسن روحانی
صدر روحانی دوسری مرتبہ اس عہدے کے امیدوار ہیں۔ اپنا اندراج کرواتے ہوئے اُنہوں نے اپنی حکومت کے کئی ایک ’مثبت اقدامات‘ کا ذکر کیا اور تمام ایرانی مرد و زن پر زور دیا کہ وہ ایک بار پھر ’اسلام اور ایران کے لیے‘ ووٹ دیں۔
تصویر: Reuters
ابراہیم رئیسی
روحانی کے سب سے مشہور حریف چھپن سالہ عالم ابراہیم رئیسی ہیں، جو قائد انقلاب آیت اللہ خامنہ ای کے ایک قریبی ساتھی رہ چکے ہیں اور انہیں اُن کا جانشین تصور کیا جاتا ہے۔ رئیسی ’قتل عام کے جج‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ 1988ء میں اُس کونسل کے رکن تھے، جس نے تقریباً پانچ ہزار سیاسی قیدیوں کو پھانسی دے دی تھی۔
تصویر: ISNA
محمد باقر قالیباف
تہران کے قدامت پسند میئر متعدد مرتبہ صدر کے عہدے کے لیے امیدوار رہ چکے ہیں چنانچہ وہ ایران کے بہت سے ووٹرز کے لیے کوئی نیا چہرہ نہیں ہیں۔ چھپن سالہ قالیباف بہت سے اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں، جن میں انقلابی گارڈز کی فضائی افواج کے سربراہ کا عہدہ بھی شامل ہے۔
تصویر: Tasnim
مصطفیٰ میر سلیم
کئی بڑے عہدوں پر متمکن رہنے والے ستّر سالہ میر سلیم کا شمار سخت گیر موقف رکھنے والے سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور وہ موتلفه اسلامی نامی اُس جماعت کے سربراہ ہیں، جس میں انتہائی قدامت پسند شخصیات شامل ہیں۔ وہ اُس کمیٹی کے بھی با اثر ترین ارکان میں شامل ہیں، جو پارلیمان اور شوریٰ نگہبان کے درمیان ثالث کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ کئی سرکاری عہدوں پر فائض رہ چُکے ہیں۔
تصویر: Fars
اسحاق جہانگیری
ایک اعتدال پسند سیاستدان اور 2013 ء سے ملک کے نائب صدر ہیں. یہ اصلاح پسند صدر خاتمی کے دور میں صنعت کے وزیر بھی تھے. اسحاق جہانگیری ماضی میں کئی اہم انتظامی عہدوں پر فائض رہ چُکے ہیں۔ کچھ سال صوبے اصفہان کے گورنر بھی رہے. ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ وہ صدر روحانی کے حق میں اپنی نامزدگی واپس لے لیں گے۔
تصویر: tasnimnews
مصطفےٰ ہاشمی طبا
یہ آزاد امیدواروں میں شامل ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق نہ تو قدامت پسند دھڑے سے ہے، نہ ہی اصلاح پسندوں سے اور نہ ہی اعتدال پسند دھڑے سے۔ ان کے پاس بھی بہت سے عہدے رہ چکے ہیں۔ ہاشمی طبا رفسنجانی اور محمد خاتمی کے دور میں وزیر اور نائب صدر رہ چکے ہیں۔