’ٹرمپ دنیا کو جنگل کے قانون کی جانب لے جا رہے ہیں‘
23 مارچ 2019
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک مرتبہ پھر مروجہ سفارتی اقدار توڑتے ہوئے گولان کے مقبوضہ پہاڑی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کا اقدام ان کے دور صدارت کا ایک اور متنازعہ قدم ہے۔
اشتہار
صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو ماہرین تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے دیگر ممالک کو بھی کم زور ممالک کی جغرافیائی حدود توڑنے اور توسیع پسندانہ سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا پیغام ملے گا۔
اسرائیل نے سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں شام کے علاقے گولان پر قبضہ کر لیا تھا اور سن 1981 میں اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا تھا، تاہم بین الاقوامی برادری اس اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ جمعرات کے روز امریکی صدر نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ وہ 52 برس بعد گولان کے مقبوضہ علاقے پر مکمل اسرائیلی حق تسلیم کرنے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب صدر ٹرمپ کے اتحادی اسرائیلی وزیراعظم بیجمن نیتن یاہو انتخابات کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں اپوزیشن کی جانب سے مشکلات درپیش ہیں۔ دوسری جانب امریکی اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ گولان کے علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کریں گے اور اسے مقبوضہ علاقہ ہی سمجھا جائے گا۔
امریکی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے صدر رچرڈ ہاس نے خبردار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 242 جو اس چھ روزہ جنگ کے بعد منظور کی گئی تھی،کو موثر رہنا چاہیے اور اگر امریکا اس قرارداد سے نکلتا ہے، تو اس کے خوف ناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ہاس نے کہا کہ یہ قرارداد جنگ کے دوران اس علاقے سے متعلق واضح موقف اختیار کرتی ہے۔
انہوں نے سن 1991 کی عراق جنگ اور یوکرائنی علاقے کریمیا کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا، ’’بین الاقوامی امن کی بنیاد اور صدام حسین حکومت کے کویت اور پوٹن کے کریمیا پر قبضے کے خلاف امریکا کا بنیادی اعتراض یہی تھا کہ توسیع پسندی قابل قبول نہیں ہو گی۔‘‘
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدوں اور ضوابط کو مسترد کیا ہے، اس سے قبل انہوں نے سن 2017 میں یروشلم کو باضابطہ طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا تھا۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔
سویڈن کے وزیرخارجہ کارل بلڈٹ نے صدر ٹرمپ کے بیان کے جواب میں کہا، ’’ٹرمپ دنیا کو دوبارہ جنگل کے قانون کی جانب لے جا رہے ہیں۔‘‘
اپنے ایک ٹوئٹ میں بلڈٹ کا کہنا تھا، ’’بنیادی بین الاقوامی قانون سے اخراج ایک تباہ کن عمل ہے۔ ماسکو حکومت اس پر خوش ہو گی اور کریمیا پر اسی قانون کا نفاذ کرے گی۔ بیجنگ حکومت اس پر خوش ہو گی اور وہ جنوبی بحیرہ چین پر اس کا نفاذ کرے گی۔‘‘
فرانسیسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی ٹرمپ کے اس اعلان کی مخالف کرتے ہوئے اس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ فرانسیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاقانونیت کو قبول نہ کریں۔