1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دو ہزار چوبیس میں یورپی یونین کو درپیش بڑے چیلنجز

6 جنوری 2024

چاہے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ ہو، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی یا پھر یورپی بلاک کی اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں، نئے سال 2024ء میں یورپی یونین کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے اور اسے کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔

Brüssel Europaparlament
تصویر: Daniel Kalker/dpa/picture alliance

 

1۔  یوکرین کے خلاف روس کی جنگ

یورپی یونین کے 27 رکن ممالک نے بارہا وعدہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کی اس وقت تک مدد کریں گے جب تک اسے روس کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے رہنما عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ روس کی جیت یورپی یونین کی سلامتی کے لیے خطرناک ہو گی۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ 2024 ء میں یوکرین کے ساتھ کھڑے رہیں گے؟

حالیہ ہفتوں میں برسلز میں یورپی یونین میں شامل ممالک کے رہنماؤں میں جس موضوع پر بہت زیادہ بحث ہوئی، وہ تھا 'یوکرینی روسی جنگ کے باعث تھکاوٹ‘ اور یوکرین کے ساتھ یکجہتی کے دھندلے پڑتے ہوئے جذبات۔ یوکرین کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے مالی امداد، جس کا یورپی یونین نے وعدہ کیا ہے، پر متفقہ طور پر دستخطوں کا عمل مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ نقطہ نظر، کہ اس بات کا انحصار خود یوکرین پر ہے کہ وہ ماسکو کے ساتھ مذاکرات کرے یا نہ کرے، اس سال یورپی یونینکے لیے ایک بڑا سوال بن سکتا ہے۔

جرمنی کو لاکھوں ہنر مند افراد درکار، ويزا پاليسی نرم

03:12

This browser does not support the video element.

یورپی کمیشن کی صدر اُرزُولا فان ڈئرلاین نے گزشتہ برس نومبر میں کہا تھا، ''اولین مقصد ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے کام جاری رکھنا ہونا چاہیے، نہ کہ ایک اور منجمد تنازعہ۔ یوکرین کو وسط مدتی اور طویل مدتی بنیادوں پر استحکام اور خوشحالی دینے کا بہترین طریقہ یقیناً اس کی یورپی یونین کی رکنیت ہے۔‘‘

یوکرین پر روسی حملے اس ملک کو شدید نقصانات پہنچا چُکے ہیںتصویر: AP/picture alliance

2۔ یورپی یونین میں توسیع

یورپی یونین کے تقریباً تمام رکن ممالک نے سرکاری طور پر کہا ہے کہ وہ یوکرین کو اس یورپی کلب میں شامل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن نجی گفت و شنید میں انہی لیڈروں نے اس امر کو بھی تسلیم کیا ہےکہ شاید یورپی یونین کے کمیشن کی صدر فان ڈئرلاین بہت تیزی سے بہت دور جا رہی ہیں۔ یوکرین اور مالدووا 2024ء میں باضابطہ طور پر یونین سے اپنے ممکنہ الحاق کے بارے میں مذاکرات شروع کریں گے۔ لیکن جنگ زدہ یوکرین کی یورپی یونین میں رکنیت کی موجودہ رکن ریاستوں کو بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

یہاں تک کہ یوکرین کے قریبی حامی جیسے پولینڈ اور یورپی یونین کی رکن بالٹک کی ریاستیں بھی کافی محتاط نظرآ رہی ہیں۔ وہ یورپی یونین میں نئے رکن ممالک کی شمولیت کے بعد اس بلاک کے بجٹ میں موجودہ امداد وصول کنندہ ممالک سے امداد دہندہ ریاستیں بن سکتے ہیں۔ پس پردہ یورپی یونین کے حکام ان خدشات کو دور کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان رکن ممالک نے کہا ہے کہ رکنیت کے خواہش مند ملکوں سے مذاکرات شروع تو کیے جا سکتے ہیں تاہم ان کی یونین میں عملی شمولیت میں کئی سال یا عشرے بھی لگ سکتے ہیں۔

مالدووا کے نائب وزیر اعظم کے چوٹی کے یورپی سفارتکاروں سے مذاکراتتصویر: Daniel Mihailescu/AFP/Getty Images

3۔ یونین کے اندرونی مسائل

یورپی یونین میں شمولیت کے خواہش مند نئے ممالک کی درخواستوں کا معاملہ ایک طرف مگر یورپی یونین کے سب سے اہم  داخلی معاملات میں فیصلہ سازی کے عمل اور اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی سے متعلق تبدیلیوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں طویل عرصے سے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ صرف ایک آزاد اور اقتصادی طور پر مضبوط یورپی یونین ہی نئے رکن ممالک کو اپنی صفوں میں کامیابی سے شامل کر سکتی ہے۔ وفاقی جرمن حکومت نے اتفاق رائے کے بجائے اکثریتی رائے سے فیصلہ سازی کی تجویز پیش کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایسی ضرورت ہے جس کا یونین کے سربراہی اجلاسوں میں اکثر رکاوٹیں پیدا ہونے کی وجہ سے پورا کیا جانا ناگزیر ہے۔

یورپی یونین پاکستان کے ساتھ تعاون کی خواہاں ہے، رینا کیونکا

05:14

This browser does not support the video element.

دوسری طرف یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ آیا 2024ء میں ہی ایسی کوئی بڑی تبدیلیاں عملاﹰ ممکن ہو سکیں گی۔ اتفاق رائے کے لازمی ہونے کی شرط کو ختم کرنے کے لیے بھی تمام رکن ممالک کا یہ متفقہ فیصلہ ضروری ہو گا۔ تاہم حالیہ برسوں میں لیہ امور میں ہنگری اور پولینڈ کی رضامندی حاصل کرنے میں یورپی یونین کامیاب نہ ہوسکی اور ان دونوں ممالک نے کئی مرتبہ اپنے ویٹو کے حق استعمال کیے۔

فرانسیسی صدر ماکروں کا ایک مضبوط تر یورپی اتحاد پر زورتصویر: Ludovic Marin/AP Photo/picture alliance

4۔ ڈونلڈ ٹرمپ

امریکہ کے سابق صدر اور ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی یورپی یونین اور نیٹو کے بہت سے ممبر ملکوں کے لیے درد سر ہو سکتی ہے کیونکہ یوں یورپی یونین امریکہ کو اپنے قریب ترین تجارتی اتحادی اور روس کی جارحیت روکنے اور یوکرین کی حمایت کرنے والے ساتھی کے طور پر کھو سکتی ہے۔ جرمن امریکی چیمبر آف کامرس کو خدشہ ہے کہ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کی حیثیت سے یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ تجارت پر تعزیری محصولات عائد کریں گے۔ بدلے میں یورپی یونین کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ یوں دوطرفہ تجارتی حجم میں مزید کمی بھی ہو سکتی ہے اور یورپی یونن کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

 

ڈونلڈ ٹرمپ کا ’میک امیریکا گریٹ‘ کا عزم یورپ کے لیے خطرناکتصویر: Kamil Krzaczynski/AFP/Getty Images

5۔ یورپی پارلیمانی انتخابات

نئے سال 2024ء کے جون میں یورپی پارلیمان کے انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ پچھلی بار ان انتخابات میں اہل ووٹروں میں سے صرف نصف نے ووٹ دیے تھے۔ اس بار توقع ہے کہ مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والی یورپین پیپلز پارٹی ایک بار پھر یورپی پارلیمان میں سب سے بڑے گروپ کی حیثیت سے ابھرے گی جبکہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے بھی اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں پر مشتمل یورو بیرومیٹر کے اندازوں کے مطابق اس بار الیکشن میں  ووٹروں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت ان کی انفرادی معاشی صورتحال اور ان کے معیار زندگی کی ہو گی۔ ووٹر جب اپنی پسند کے نمائندے چنیں گے، تو ان کی ترجیحات کی  فہرست میں یوکرینی جنگ، تارکین وطن کی آمد اور یورپی یونین کی توسیع جیسے موضوعات بہت نیچے رہیں گے۔

یورپی یونین کی مائیگریشن پالیسی میں اصلاحات

01:42

This browser does not support the video element.

یورپی کمیشن  کی موجودہ صدر فان ڈئر لاین کا ان کے موجودہ عہدے کی دوسری مدت کے لیے انتخاب بھی کافی حد تک ممکن ہے۔ تاہم انہیں پہلے27 رکن ریاستوں کی حکومتوں کی طرف سے اپنی نامزدگی کی توثیق کی ضرورت ہو گی اور پھر اس فیصلے  کی یورپی پارلیمنٹ بھی توثیق کرے گی۔

یہ مضمون پہلی بار جرمن زبان میں لکھا گیا۔ 

ک م / م م (بیرنڈ ریگرٹ)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں