1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ، سعودی ولی عہد مجوزہ ملاقات: ابراہیمی معاہدے کا امکان؟

جاوید اختر روئٹرز کے ساتھ
10 نومبر 2025

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس امکان پر زور دیا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر راضی ہو جائے گا، تاہم جب ولی عہد محمد بن سلمان اگلے ہفتے وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے، تو اس کی توقع کم ہی ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مئی میں ریاض میں ملاقات کے دوران
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اب بہت سے ممالک ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو رہے ہیں، اور امید ہے کہ ہم بہت جلد سعودی عرب کو بھی اس میں شامل دیکھیں گےتصویر: Saudi Press Agency/SIPA/picture alliance

اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان دہائیوں کی دشمنی کے بعد سفارتی تعلقات کا قیام مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی و سلامتی کے منظرنامے کو بڑی حد تک بدل سکتا ہے اور خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔

ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہیں امید ہے سعودی عرب ''بہت جلد‘‘ ان دیگر مسلم ممالک میں شامل ہو جائے گا جنہوں نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے 2020 میں ابراہیمی معاہدے پر دستخط کیے۔

تاہم دو خلیجی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ ریاض نے سفارتی ذرائع سے واشنگٹن کو واضح کر دیا ہے کہ اس کا مؤقف تبدیل نہیں ہوا ہے۔ سعودی عرب اسی صورت میں دستخط کرے گا جب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح روڈ میپ پر اتفاق ہو جائے۔

ان کے مطابق اس کا مقصد کسی بھی سفارتی غلطی سے بچنا اور عوامی بیانات سے قبل سعودی و امریکی مؤقف میں ہم آہنگی کو یقینی بنانا ہے۔ ایک ذریعے نے کہا کہ مقصد یہ ہے کہ 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس مذاکرات کے دوران یا بعد میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو۔

سابق امریکی انٹیلی جنس اہلکار جوناتھن پینیکوف نے، جو اب واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں نے کہا، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، جنہیں عام طور پر ایم بی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے، ''قریب مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ بنانے پر غور نہیں کریں گے جب تک کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی قابلِ اعتماد راستہ سامنے نہ آئے۔‘‘

پینیکوف کے مطابق، ایم بی ایس ممکنہ طور پر ٹرمپ پر اثر انداز ہو کر ایک ''واضح اور مضبوط حمایت‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عالمی حمایت بڑھے۔

ریاض نے واشنگٹن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی بھی اقدام ایک نئے فریم ورک کے تحت ہونا چاہیے، نہ کہ صرف موجودہ معاہدے کے تسلسل کے طور پرتصویر: Win McNamee/Getty Images

ابراہیمی معاہدوں کے متعلق ٹرمپ کے بیانات

اگلے ہفتے ہونے والا دورہ، سعودی ولی عہد کا 2018 کے بعد واشنگٹن کا پہلا دورہ ہو گا، جب صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا تھا۔ خاشقجی سعودی قونصل خانے (استنبول) میں قتل کیے گئے تھے۔ وہ ایم بی ایس کے بڑے ناقد تھے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس قتل میں کسی براہِ راست کردار سے انکار کیا تھا۔

متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش پہلے ہی ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، اور ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ جلد ہی مزید ممالک اس میں شامل ہوں گے۔

ٹرمپ نے 5 نومبر کو کہا، ''اب بہت سے ممالک ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو رہے ہیں، اور امید ہے کہ ہم بہت جلد سعودی عرب کو بھی اس میں شامل دیکھیں گے،" تاہم انہوں نے کوئی حتمی وقت نہیں بتایا۔

سترہ اکتوبر کو نشر ہونے والے ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا، ''میں امید کرتا ہوں کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی اس معاہدے میں شامل ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جب سعودی عرب شامل ہو گا، تو سب شامل ہوں گے۔‘‘

دو خلیجی ذرائع کے مطابق، ریاض نے واشنگٹن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی بھی اقدام ایک نئے فریم ورک کے تحت ہونا چاہیے، نہ کہ صرف موجودہ معاہدے کے تسلسل کے طور پر۔

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے دستخط کردہ ابراہیمی معاہدوں میں فلسطینی ریاست کے قیام کا ذکر نہیں ہے۔

سعودی عرب کے لیے، جو خود کو اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ کا خادم (خادم الحرمین شریفین) قرار دیتا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا محض ایک سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ ایک انتہائی حساس قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، جس کے انتہائی وسیع مضمرات ہوں گے۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں