ٹرمپ مشرق وسطی کے ’طاقتور‘ رہنماؤں کی قربت کے خواہاں کیوں؟
14 دسمبر 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے ''طاقتور‘‘ اور آمر حکمرانوں کے بارے میں سخت بات کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو ''شاندار‘‘ اور ''بہت باصلاحیت‘‘ قرار دے چکے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ''انسانی حقوق سمیت ہر چیز کے لحاظ سے ان کا کام ناقابلِ یقین ہے۔‘‘ حالانکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سعودی عرب اس سال اب تک 240 سے زائد افراد کو بغیر شفاف قانونی عمل کے سزائے موت دے چکا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بھی ٹرمپ کے تعلقات خصوصی نوعیت کے قرار دیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ امریکہ کے ترکی میں سفیر نے دونوں کے رشتے کو ''برومانس‘‘ کہا۔ اکتوبر کی ایک ملاقات میں ٹرمپ نے ایردوان کو ''ٹف کوکی لیکن میرا دوست‘‘ کہا، جو حال ہی میں اپوزیشن رہنماؤں کو جیل بھیجنے کی وجہ سے عالمی خبروں میں تھے۔
مشرقِ وسطیٰ کے آمروں کے لیے نیا امریکی رویہ
ماضی میں امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں فوجی تعاون اور امداد کو انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں سے مشروط رکھتا تھا۔ لیکن رواں ماہ جاری ہونے والی نئی امریکی قومی سلامتی حکمتِ عملی میں ان حوالوں کا تقریباً خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
2022 کے ورژن میں، جو سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں کیا گیا تھا، واضح تھا کہ امریکہ ''قواعد پر مبنی عالمی نظام کا احترام کرنے والے ریاستوں کی حمایت‘‘ کرے گا اور ''انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جواب دہی کا مطالبہ‘‘ کرے گا۔
مگر ٹرمپ انتظامیہ کی تازہ حکمتِ عملی میں انسانی حقوق کا ذکر تک نہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ امریکا کو ''ان ممالک خصوصاً خلیجی بادشاہتوں کو اپنی روایات اور حکومتی ڈھانچوں کو چھوڑنے کے لیے لیکچر دینا بند کرنا ہو گا۔‘‘
اسی دستاویز میں یورپ کے لیے نرمی نہیں دکھائی گئی بلکہ وہاں دائیں بازو کی یورو مخالف جماعتوں کی حمایت جیسے ''کلچر وار‘‘ کے آثار نمایاں ہیں۔
خاشقجی قتل کیس میں محمد بن سلمان کا دفاع
رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ کے ماہر کرسچن کوٹس اُلرِکسن کے مطابق ٹرمپ کے ''ذاتی نوعیت کے فیصلے‘‘ اور ''آمرانہ رجحانات‘‘ انہیں مشرقِ وسطیٰ کے ''طاقتور‘‘ حکمرانوں کے قریب لاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کو خلیجی حکمرانوں کے ساتھ لین دین پر مبنی تعلقات اور ان کے طرزِ حکمرانی میں مماثلت نظر آتی ہے۔
ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کے دورہ واشنگٹن کے موقع پرکھل کر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر محمد بن سلمان کا دفاع کیا۔ کنگز کالج لندن کے ماہر اینڈریئس کریگ کے مطابق خلیج میں ''آپ وہی پاتے ہیں جس کی قیمت ادا کرتے ہیں‘‘ کا تصور غالب ہے اور یہ ٹرمپ کے سوچنے کے طریقے سے بےحد مطابقت رکھتا ہے۔ قطر نے ٹرمپ کو 40 کروڑ ڈالر کا نجی طیارہ بطور تحفہ دیا جبکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے امریکہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کیے۔
ٹرمپ کی بادشاہ بننے کی خواہش؟
ماہرین کے مطابق ٹرمپ اس بات کی بھی قدر کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے آمر حکمرانوں کے اقدامات پر کوئی قدغن نہیں ہوتی،کچھ ایسا ہی ماحول وہ اپنے دوسرے دورِ صدارت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
فروری 2025 میں ٹرمپ نے خود کو ''بادشاہ‘‘ کے طور پر پیش کیا اور ایک بیان کے آخر میں لکھا، ''لانگ لِو دی کِنگ!‘‘ بعد میں وائٹ ہاؤس کے انسٹاگرام اکاؤنٹ نے ٹرمپ کا تاج پہنے ایک اے آئی خاکہ بھی شیئر کیا۔
'نیو رائلزم‘: عالمی نظام میں نئی تبدیلی؟
انٹرنیشنل آرگنائزیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں پروفیسر اسٹیسی گاڈارڈ اور ابراہام نیومین نے ٹرمپ کے ان رجحانات کو ''نیو رائلزم‘‘ کا حصہ قرار دیا ہے: ایک ایسا عالمی نظام جو چند انتہائی طاقتور اشرافیہ کے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ٹرمپ مطلق خود مختاری کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں، خاندان اور وفادار حلقے پر انحصار کرتے ہیں اور عالمی تعلقات کو بھی اسی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے حکمرانوں مثلاً ایردوآن، سعودی شاہی خاندان، امارات اور قطر کو ترجیح دیتے ہیں، جو اسی طرزِ حکمرانی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ رجحان صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ ترکی، بھارت، ہنگری، چین اور روس جیسے ممالک بھی اسی سمت جا رہے ہیں۔ تاہم امریکہ جیسی طاقت کا اس سمت بڑھنا عالمی نظام میں ''نسلوں میں ایک بار‘‘ آنے والی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ نیومین کے مطابق اگر اس نئے نظام کو مضبوط ہونا ہے تو اسے موجودہ لبرل عالمی نظام کو کمزور کرنا ہو گا، یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین جیسے ادارے مسلسل تنقید اور دباؤ کا شکار ہیں۔
نیو رائل نظام میں جواز حاصل کرنے کے لیے ''غیر معمولی حکمرانوں‘‘ کی منظوری درکار ہوتی ہے اور مشرقِ وسطیٰ اس منظوری کا ''زرخیز میدان‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ''اگر آپ اس متبادل نظام کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس رویے کو معمول بنانا ہو گا، اسے جائز دکھانا ہو گا۔ اور مشرقِ وسطیٰ کے آمر رہنما ٹرمپ کو یہی جواز فراہم کرتے ہیں۔‘‘
ادارت: جاوید اختر