سابق امریکی صدر ٹرمپ مواخذے سے دوسری مرتبہ بھی بچ گئے
14 فروری 2021
امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل میں ہنگامہ آرائی پر اکسانے کے الزام میں مواخذے کی کارروائی میں بری کر دیا۔ فیصلے کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ ان کی تحریک ’ابھی صرف شروع ہوئی ہے‘۔
اشتہار
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کی دوسری کارروائی میں بھی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات سے بری ہو گئے ہیں۔ ہفتہ تیرہ فروری کی شام امریکی سینیٹ میں سات ریپبلکن سینیٹرز سمیت ستاون ارکان نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تینتالیس اراکین نے اس کی مخالفت کی۔ اس طرح امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کے لیے لازمی طور پر درکار دو تہائی اکثریت حاصل نا ہو سکی۔ یوں سابق صدر ٹرمپ کيپيٹل ہل پر حملے کی ترغيب دينے کے الزام میں اپنے مواخذے سے بچ گئے۔
اشتہار
ٹرمپ کا اثر و رسوخ
واشنگٹن میں ڈی ڈبلیو کی بیورو چیف اینس پوہل کے مطابق امریکی سینیٹ میں ووٹنگ کے نتائج سے ٹرمپ کے اثر و رسوخ کا واضح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''سابق امریکی صدر ٹرمپ ریپبلکن پارٹی پر گرفت رکھتے ہیں۔‘‘ اینس پوہل سمجھتی ہیں کہ ٹرمپ کی سیاست کا معاملہ ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔
واضح رہے کہ چھ جنوری کو ٹرمپ کے حاميوں نے کيپيٹل ہل پر دھاوا بول ديا تھا اور وہاں پرتشدد کارروائيوں ميں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بریت کے بعد ٹرمپ کیا کہتے ہیں؟
امریکی کانگریس صدر ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے بھی ایک بار ان کے مواخذے کی کوشش کر چکی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر ہیں، جن کے خلاف کانگریس نے چار سال میں دو بار مواخذے کی کوشش کی۔
امریکی سینیٹ کی جانب سے تمام الزامات سے بری کر دیے جانے کے فیصلے کے بعد ٹرمپ نے اپنے سیاسی مستقبل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''امریکا کو عظیم بنانے کے لیے ہماری تاریخی، حب الوطنی سے عبارت خوبصورت تحریک ابھی ابھی شروع ہوئی ہے۔‘‘
انہوں نے اپنے حامیوں کو مخاظب کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے پاس آگے بہت کام ہے اور بہت جلد ہم امریکا کے روشن مستقبل کے وژن کے ساتھ ابھر کر سامنے آئیں گے۔‘‘
جو بائیڈن کا رد عمل
امریکی کانگریس کے فیصلے کے بعد صدر بائیڈن نے کہا، ''ہماری تاریخ کے اس افسوسناک باب نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جمہوریت کمزور ہو گئی ہے۔‘‘
ان کے بقول، ''اگرچہ حتمی رائے دہی میں سزا نہیں دی گئی لیکن الزامات متنازعہ نہیں ہیں۔‘‘ صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا، ''امریکا میں تشدد اور انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے گزشتہ نومبر کے صدارتی الیکشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور دھاندلی کے غلط الزامات لگائے۔ انہوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں اپنے حامیوں کو اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں چھ جنوری کو مسلح مظاہرین نے امریکی کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس دن امریکی نائب صدر مائیک پینس اور اسپیکر نینسی پیلوسی سمیت کئی اراکین کانگریس اور ان کا اسٹاف اپنی جانیں بچانے کے لیے عمارت کے مختلف کمروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
ع آ / م م (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔