ٹرمپ نے انتخابی سکیورٹی کے سربراہ کو ہی برخاست کردیا
18 نومبر 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی سکیورٹی کے لیے ذمہ دار اس اعلی عہدیدار کو برخاست کردیا ہے جس نے انتخابات میں ان کے دھندلی کے دعوں کی سختی سے تردید کی تھی۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ انہوں نے 'سائبر سکیورٹی اور انفرا اسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی' (سی آئی ایس اے) کے ڈائریکٹر کرس کریب کو ان کے عہدے سے فوری طور پر برطرف کر دیا ہے۔ سی آئی ایس اے امریکہ میں محکمہ داخلہ کے ماتحت کام کرتا ہے۔
سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی جانب سے مداخلت کے الزامات سامنے آنے کے بعد اس ادارے کا قیام خود ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں کیا تھا۔ اس کا مقصد انتخابات کو بیرونی مداخلت اور ہر طرح کی دھاندلیوں سے محفوظ رکھنا ہے۔
منگل 17 نومبر کو اپنی متعدد ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے دعوی کیا کہ کرس کریبس نے حالیہ انتخابات میں سکیورٹی کے دفاع کے تعلق سے جو بیانات دیے وہ ''انتہائی غلط ہیں۔'' ٹرمپ نے انتخابات میں اب تک اپنی شکست اور جوبائیڈن کی جیت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور بغیر ثبوت و شواہد کے بڑے پیمانے پر انتخابات میں دھاندلیوں اور مشینوں میں گڑبڑی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
لیکن انتخابات سے متعلق اداروں نے ٹرمپ کے ان دعووں کو مسترد کردیاہے۔ سی آئی ایس اے اور ریاستوں کے انتخابی حکام نے گزشتہ ہفتے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ اس بات کے دور دور تک کوئی شواہد نہیں ہیں کہ بیلٹ پیپرز یا پھر ووٹنگ مشین سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ کیا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ 2020 کے انتخابات ملک کی تاریخ میں محفوظ ترین اور شفاف انتخابات میں سے ایک ہیں۔
خدمت پر فخر ہے
ادھر کرس کریبس نے بھی اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے جو بات کہی اس سے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی برخاستگی کی تصدیق کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی ٹویٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''خدمات کا اعزاز حاصل ہے۔ ہم نے اسے اچھے طریقے سے کیا۔ آج دفاع کریں، کل کو ہم اس کو محفوظ بھی کر لیں گے۔''
اشتہار
مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق کریب کو اپنی برخاستگی کا علم ٹرمپ کی ٹویٹ سے ہوا۔ اس دوران سینیٹ میں انٹیلیجنس سے متعلق سلیکٹ کمیٹی کے نائب سربراہ مارک وارنر نے کرس کریب کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرس کریب ایک بہترین سول سرونٹ ہیں جنہوں نے، ''عین امریکی توقعات کے مطابق ہمارے انتخابات کو تحفظ فراہم کیا۔ صدر نے انہیں صرف حق بات کہنے کے لیے برخاست کردیا جس سے صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔''
امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟
05:03
ابھی نومنتخب صدر جو بائیڈن اور ان کی ساتھی نائب صدر کمالہ ہیرس کی جانب سے کرس کریب کی برخاستگی پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
سی آئی ایس اے پر ووٹنگ مشینوں اور بیلٹ پیپرز کی گنتی کرنے والی مشینوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ انہیں کسی بھی طرح کی بیرونی یا پھر اندرونی مداخلت سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ کی ٹیم کرس کریب سے اس لیے بھی ناراض ہے کہ ان کا ادارہ افواہوں پر کنٹرول کے لیے ایک خاص ویب سائٹ 'ریومر کنٹرول' چلاتا ہے جو انتخابی عمل سے متعلق غلط خبروں اور افواہوں کے ازالے کا کام کرتی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے ٹرمپ کی ٹیم انتخابات سے متعلق مختلف طرح کی افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام کرتی رہی ہے تاہم اس ویب سائٹ نے بڑے موثر انداز میں اس طرح کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا ہے۔
انتخابات میں ناکامی کے بعد ٹرمپ نے سب سے پہلے اپنے وزیر دفاع مارک ایسپر کو برخاست کیا تھا۔ انہیں بھی ٹویٹ کے ذریعے برخاستگی کا پتہ چلا تھا۔ اور کرس کریب کی برخاستگی اس نوعیت کی دوسری برخاستگی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔