ٹرمپ نے اپنے مزید ساتھیوں اور حامیوں کی سزائیں معاف کر دیں
24 دسمبر 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سمدھی اور روسی معاملے میں ملوث اپنے دو دیگر ساتھیوں کی سزائیں معاف کی ہیں۔ جلد ہی سبکدوش ہونے والے امریکی صدر اس سے قبل بھی پندرہ افراد کو معافی نامہ جاری کر چکے تھے۔
اشتہار
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لوگوں کو معاف کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت بدھ 23 دسمبر کو انہوں نے متعدد مزید افراد کو معاف کرنے کا اعلان کیا۔ معافی نامے کی اس نئی فہرست میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق مینیجر پال مینافورٹ، ان کے ایک ساتھی روجر اسٹون اور داماد جیراڈ کشنر کے والد چارلز کشنر کا نام شامل ہے۔
مینافورٹ کو 2016ء کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے لیے خصوصی تفتیش کے بعد قصوروار قرار دیا گیا تھا۔ ان پر غلط بیانی سے کام لینے اور منی لانڈرگ میں ملوث ہونے پر امریکا کے خلاف سازش کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور سات برس سے زیادہ کی سزا سنائی گئی تھی۔
صدر کی جانب سے معافی ملنے کے بعد مینافورٹ نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ "صدارتی فرمان کے ذریعے آپ نے ہمیں جو معافی عنایت کی ہم اس پر شکر گزار ہیں۔ الفاظ یہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ میں آپ کا کتنا احسان مند ہوں۔"
روجر اسٹون کو ارکان پارلیمان کے ساتھ حلفیہ بیان میں جھوٹ بولنے کے لیے قصوروار قرار دیا گیا تھا۔ انہیں بھی اس جرم کے لیے 40 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بھی معاف کردیا ہے۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
ٹرمپ کے سمدھی نے ٹیکس کے 18 معاملات میں عدالت کے سامنے ہیرا پھیری کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ انہیں ثبوتوں کو تلف کرنے اورغیر قانونی طور پر فنڈز جمع کرنے کی مہم چلانے کے لیے دو برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ٹرمپ نے ان کی بھی سزا معاف کر دی ہے۔ ان پر نیو جرسی کے گورنر کرسٹ کرسٹی نے مقدمہ چلایا تھا جو ایک وقت ٹرمپ کے مشیر بھی رہے تھے۔
بدھ کے روز صدر نے 23 دیگر افراد کی بھی سزا کی معافی کا اعلان کیا اور اس طرح گزشتہ دو روز کے اندر انہوں نے 49 افراد کو معافی نامہ جاری کیا ہے۔ انہوں نے عراقی شہریوں کی ہلاکت کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے بلیک واٹر کمپنی کے گارڈز کو بھی معاف کر دیا ہے۔
امریکا میں جلد اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے صدر کے لیے اپنے آخری ایام میں لوگوں کی سزائیں معاف کرنا ایک عام روایت ہے۔ سابق صدر بارک اوباما نے بھی اپنے اقتدار کے آخری دن سنیکڑوں افراد کو معافی نامہ جاری کیا تھا جس میں بیشتر افراد کو منشیات کے استعمال کے لیے قصوروار قرار دیا گيا تھا۔ موجودہ صدر ٹرمپ کا اقتدار آئندہ 20 جنوری کو ختم ہو رہا ہے۔