ٹرمپ نے بھی ٹینکر حملوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دے دیا
15 جون 2019
امریکی صدر ٹرمپ نے تیل کی ترسیل کے اہم ترین سمندری راستے آبنائے ہرمز کے قریب دو آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کر دی ہے۔ تاہم انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ایران جلد مذاکرات کی میز پر آ جائے گا۔
اشتہار
ڈونلڈ ٹرمپ نے تیل لے جانے والے دو بحری جہازوں پر دو روز قبل خلیج عمان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ امریکا کی طرف سے طاقت کے استعمال کی دھمکی ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے میں معاون ہو گی۔ دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون خلیج فارس کے علاقے میں اپنی فوجی قوت میں مزید اضافے پر غور کر رہا ہے۔
جمعہ 14 جون کو فوکس نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ''ایران نے ہی یہ کیا ہے‘‘۔ مگر انہوں نے اس بارے میں کسی ثبوت کی کوئی بات نہیں کی تاہم امریکی فوج نے جمعے کے روز ہی ایک ویڈیو جاری کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ایرانی انقلابی گارڈز حملے کا نشانہ بننے والے ایک آئل ٹینکر سے وہ دھماکا خیز مواد ہٹا رہے ہیں جو پھٹ نہیں سکا تھا۔ امریکی فوج کے مطابق اس کا مقصد حملے کے ثبوت مٹانا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے تبصرے کے مطابق ایران پر انگلی اٹھا کر ٹرمپ نے دراصل اس معاملے کو عوامی بنانے کی کوشش کی ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے ایران کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے۔ یہ دراصل وہی حکمت عملی ہے جو امریکا شمالی کوریا کے خلاف اپنائے ہوئے ہے جس نے جنگ کی دھمکیاں دینے کا عمل تو روک دیا تاہم ابھی تک اس کے جوہری پروگرام کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ ایران کی طرف سے تاہم امریکی دباؤ کے سامنے جھکنے کی علامات دکھائی نہیں دیتیں، جس سے اس حوالے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ امریکا پابندیوں کی صورت میں ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے آخر کس حد تک جا سکتا ہے۔
ایران آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں سے کسی بھی طرح کے تعلق سے انکار کر چکا ہے اور اس نے واشنگٹن حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ اقتصادی جنگ کی صورت میں ایران کے خلاف مہم شروع کیے ہوئے ہے۔
امریکی نیوی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے جمعے کے روز حملے کا نشانہ بننے والے جاپانی بحری جہاز 'کوکوکا کریجیئس‘ پر تفتیشی عمل انجام دیا اور فورنزک شہادتیں جمع کیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ بات ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ ٹرمپ نے امریکی فوج کی طرف سے جاری ہونے والی ویڈیو کی بنیاد پر ہی یہ کہا ہے کہ ان حملوں میں ایرانی عمل دخل واضح ہو گیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس تناظر میں وہ ایران کے خلاف کیا رد عمل دکھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، ''انہیں انتہائی واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ہم انہیں میز پر واپس لانا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ ایک روز قبل ہی امریکی صدر نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہا ابھی یہ بات قبل از وقت ہے کہ ایرانی رہنماؤں کے ساتھ کسی معاہدے کے بارے میں سوچا بھی جائے اور یہ کہ ابھی نہ تو ایران اس کے لیے تیار ہے اور نہ ہی امریکا۔
ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق پینٹاگون کے حکام نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ جمعرات 13 جون کو آئل ٹینکرز پر حملوں کے بعد خلیج فارس میں مزید فوجی وسائل بھیجنے کا عمل تیز ہو سکتا ہے جن میں پیٹریاٹ میزائلوں کی مزید بیٹریاں بھی شامل ہو ں گی۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔