امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی میں تعینات امریکی افواج کی تعداد میں کمی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ برلن حکومت نیٹو کے تحت اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی میں تعینات امریکی افواج کی تعداد میں کمی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ برلن حکومت نیٹو کے تحت اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی اور امریکا کے ساتھ تجارت میں بھی جرمنی کا رویہ 'درست‘ نہیں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز برلن حکومت پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو مالی امداد دینے میں 'غفلت برتنے‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ جرمنی میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر کے 25000 کر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ امریکا کے ساتھ تجارت میں بھی جرمنی کا رویہ 'درست‘ نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہم جرمنی کی حفاظت کر رہے ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہا ہے۔ یہ تو کوئی مناسب بات نہیں ہے۔" امريکی صدر نے مزید کہا، ”ہم جرمنی میں تعینات اپنے فوجیوں کی تعداد گھٹا کر 25000 کرنے جا رہے ہیں۔ فوج کی تعیناتی پر کافی خرچ آتا ہے۔"
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جرمنی نے اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا دو فیصد حصہ نیٹو کو دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ اسے پورا نہیں کر رہا۔ نیٹو کے رکن ملکوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سن 2024 تک دو فیصد رقم نیٹو کو دیں گے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ اسے سن 2031 تک اس ہدف تک پہنچ جانے کی امید ہے۔
ٹرمپ ایک عرصے سے شکایت کرتے رہے ہیں کہ امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے میزبان ممالک اپنا حصہ ادا نہیں کر رہے اور امریکی صدر کے مطابق جرمنی اس معاملے میں سب سے بڑا قصور وار ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جرمنی جب تک خرچ کے اپنے ہدف کو پورا نہیں کرتا امریکا وہاں سے اپنی فوج کی تعداد کم کر دے گا۔
امریکی صدر نے تجارت کے سلسلے میں بھی جرمنی پر 'غلط رویہ‘ اپنانے کا الزام لگایا اور کہا، ”ہمیں تجارت کے حوالے سے بھی اور نیٹو کے حوالے سے بھی جرمنی سے تکلیف پہنچی ہے۔"
ٹرمپ کا وعدہ مشتبہ
جرمنی سے امریکی افواج کے جزوی انخلاء کے اعلان نے یورپی اتحادیوں اور خود مغربی فوجی اتحاد کے اندر طویل المدتی تعاون کے معاہدوں کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی عہد بندی پر از سر نو سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں امریکی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ جرمنی میں تعینات امریکی فوجیوں میں سے کچھ فوجیوں کو واپس بلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان خبروں نے بعض جرمن سیاست دانوں کے کان کھڑے کر دیے تھے اور وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے امریکا اور جرمنی کے تعلقات 'پیچیدہ‘ ہوگئے ہیں۔
حالانکہ جرمنی کی بائیں بازو کی پارٹی نے امریکی فوجیوں کی واپسی کا خیر مقدم کیا تھا کیوں کہ وہ ایک عرصے سے جرمنی سے امریکی فوج کی مکمل واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
امریکا میں جرمنی کی سفیر ایملی ہیبر نے صدر ٹرمپ کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں امریکی فوج ٹرانس اٹلانٹک سیکورٹی کے لیے مامور ہے اور اس سے امریکا کو اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے میں مدد ملی ہے۔
ہیبر نے فارن ریلیشنز کونسل کی طرف سے منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہ، ”امریکی فوج جرمنی کی حفاظت کے لیے تعینات نہیں ہے۔ وہ وہاں ٹرانس اٹلانٹک سیکورٹی کی حفاظت کے لیے ہے۔وہ افریقہ اور ایشیا میں امریکی طاقت کی نمائش کے لیے وہاں ہیں۔"
سنگین مضمرات
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی ان کی اپنی ری پبلکن پارٹی سمیت دیگر امریکی اراکین کانگریس نے بھی نکتہ چینی کی ہے۔ ٹیکساس کے رکن کانگریس میک تھارن بیری نے ٹرمپ کو ارسال کردہ خط میں لکھا ہے، ”روس کی طرف سے درپیش خطرات کم نہیں ہوئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ نیٹو کے تئیں امریکا کی کمزور عہد بندی کا اشارہ روسی جارحیت اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی مزید حوصلہ افزائی کرے گا۔" اس خط پر دیگر اراکین کانگریس نے بھی دستخط کیے ہیں۔
ڈیموکریٹ سينیٹر جیک ریڈ، جو سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی سے بھی وابستہ ہیں، نے ٹرمپ کے اقدام کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی 'ایک اور طرف داری‘ قرار دیا۔
ری پبلیکن رکن لز چینی نے گزشتہ ہفتے ٹرمپ کو متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کے منفی مضمرات ہوں گے۔
ج ا / ع س(اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔