سان فرانسیسکو کی اپیل کورٹ نے سوال کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندیاں کیا مسلمانوں کے خلاف امتیازی ہیں؟ تاہم امریکی محمکہ انصاف کے مطابق یہ پابندیاں مذہبی بنیادوں پر عائد نہیں کی گئی تھیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگل کے دن سان فرانسیسکو کی نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں تین رکنی بینچ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر پابندی کی بحالی کی درخواست پر سماعت کی۔
یہ سماعت ٹیلی فون لائنز پر ہوئی اور اسے کیبل نیٹ ورکس، اخباروں کی ویب سائٹس اور سماجی رابطوں کی متعدد پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس سماعت کو اپیل کورٹ کے یو ٹیوب چینل پر بھی نشر کیا گیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس سماعت کو دیکھا یا اس کی آڈیو اسٹریم سنی۔ اس سماعت میں اطراف نے اپنا اپنا مؤقف بیان کیا۔
اپیل کورٹ کے ترجمان ڈیوڈ میڈن نے بتایا ہے کہ متوقع طور پر رواں ہفتے کے اواخر تک عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ اگر یہ اپیل کورٹ ماتحت عدالت کے فیصلے کو نہیں بدلتی تو یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔ اپیل کورٹ جائزہ لے رہی ہے کہ آیا صدر ٹرمپ کی طرف سے مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر پابندی کا ایگزیکٹیو آرڈر غیر آئینی یا نہیں۔
گزشتہ جمعے کے دن واشنگٹن ریاست کے شہر سیاٹل کے وفاقی جج جیمز رابرٹ نے اس پابندی کو عارضی طور پر ملک بھر سے ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ تاہم ہفتے کے دن امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا کہ یہ پابندی امریکا کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر عائد کی گئی ہے۔
وکلاء کی طرف سے دلائل دیے جانے پر اپیل کورٹ کے جج رچرڈ کلفٹن نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ اس پابندی سے مسلم دنیا کی صرف پندرہ فیصد آبادی متاثر ہو سکتی ہے، تو کیا اس طرح یہ مسلم ممالک کے خلاف امتیازی ہو سکتی ہیں؟ تاہم امریکی انتظامیہ کے وکلاء کے بقول امریکی کانگریس نے صدر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کنٹرول کریں کہ ملک میں کون آ سکتا ہے۔
امریکا میں کتنے مسلمان بستے ہیں؟
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سب سے زیادہ تشویش وہاں رہنے والے مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ وہاں قائم کئی مساجد کو دھمکیاں ملنے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ امریکا میں کتنے مسلمان رہتے ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلمان بڑی تعداد میں
پیو ریسرچ سینٹر کا اندازہ ہے کہ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد 33 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی 32.2 کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کی حصہ داری تقریبا ایک فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ اندازہ بھی ہے کہ سن 2050 تک امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد موجودہ سطح سے دوگنا ہو جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/abaca
یہودیوں سے کم ہندوؤں سے زیادہ
ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکا میں مقیم مسلمانوں کی تعداد وہاں رہنے والے یہودیوں سے کم ہے، جن کی تعداد میں 57 لاکھ کے قریب ہے۔ وہیں امریکا میں ہندوؤں کی تعداد 21 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق امریکا میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Getty Images/W. McNamee
یہودی رہ جائیں گے پیچھے
پیو ریسرچ سینٹر نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ سن 2040 میں مسلمان امریکا میں مسیحیوں کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ ہوں گے۔ یعنی امریکا میں آباد مسلم کمیونٹی آبادی کے لحاظ سے 25 سال میں یہودیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
تصویر: dapd
نیو جرسی میں زیادہ مسلمان
امریکا میں مسلمانوں کی آبادی کچھ ریاستوں میں اوسط سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر نیو جرسی کی طرح کچھ ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Fox
مسلمان پناہ گزینوں کی آمد
پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ امریکا میں سن 2007 کے بعد سے مسلمانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ ملک میں آنے والے پناہ گزین بھی ہیں۔
تصویر: AP
کتنے مسلم پناہ گزین امریکا آئے
مالی سال 2016 میں امریکا میں داخل ہونے والے مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد اڑتیس ہزار نو سو ایک رہی جبکہ مجموعی طور پر اس مدت میں امریکی حکومت نے پچاسی ہزار پناہ گزینوں کو قبول کیا۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
تبدیلی مذہب
اس کے علاوہ امریکا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے اسلام بطور مذہب قبول کیا ہے۔ پیو کے مطابق ہر پانچ بالغ امریکی مسلمانوں میں سے ایک ایسا ہے، جس کی پرورش کسی دوسرے مذہب میں ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
مسلمان ایک پڑھی لکھی کمیونٹی
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں مسلمان کمیونٹی ملک کا دوسرا سب سے زیادہ پڑھا لکھا مذہبی طبقہ ہے۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر یہودی آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
مسلمان مخالف جذبات
امریکا میں 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں مسلمان مخالف جذبات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تصویر: AP
ٹرمپ کے بیان
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار مسلمان مخالف بیانات دیے۔ اسی مہم کے دوران ری پبلکن سیاستدان نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ ’مسلمان امریکا سے نفرت کرتے ہیں‘۔ ٹرمپ نے یہ تجویز بھی کیا کہ مسلمانوں کی عارضی طور پر امریکا میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی جانا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Locher
اسلام ایک بڑا مذہب
مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد 1.6 ارب بنتی ہے، یعنی عالمی آبادی کا 23 فیصد حصہ مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے۔ مسیحیت کے بعد اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا
پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ اسلام اس وقت دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں دنیا کا سب سے تیزی سے فروغ پاتا مذہب ہے۔
تصویر: AP
13 تصاویر1 | 13
واشنگٹن کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے کہا کہ اس سفری پابندی کی معطلی سے امریکی حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ سولیسٹر جنرل Noah Purcell نے عدالت کو بتایا کہ ان سفری پابندیوں سے ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں جبکہ اس کی تیاری میں مذہبی امتیاز کا تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے جرح کرتے ہوئے مزید کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر روڈی جولیانی نے کہا تھا کہ ٹرمپ نے انہیں کہا تھا کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جانا چاہیے، جس سے مسلمانوں کی امریکا آمد پر قانونی پابندی عائد کی جا سکے۔
صدر ٹرمپ کے اپنا عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد ستائیس جنوری کو ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا تھا، جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ملک ایران، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن کے شہریوں کی امریکا آمد پر نوّے دن کی پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ مہاجرین کی امریکا آمد پر ایک سو بیس دن کی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر پابندی کے فیصلے کے خلاف امریکا سمیت متعدد یورپی ممالک میں احتجاجی ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز فلوریڈا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولف کلب کے باہر دو ہزار افراد نے اس صدارتی حکم کے خلاف احتجاج کیا۔