ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کیوں منسوخ کیے؟
8 ستمبر 2019
گزشتہ ہفتے امریکی اور طالبان مذاکرات کاروں نے دوحہ میں ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ فریقین امن معاہدے کے مسودے پر متفق ہونے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ پھر صدر ٹرمپ نے اچانک امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟
اشتہار
امریکی صدر نے طالبان کے ایک تازہ حملے کے بعد امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا، جس میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ اعلان کئی افراد کے لیے حیرت کا سبب بنا۔
طالبان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات بھی جاری رکھے لیکن ساتھ افغانستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی بڑھا دی تھیں۔
مفادات کا ٹکراؤ
سکیورٹ امور کے کچھ افغان ماہرین کی رائے میں طالبان نے امن مذاکرات پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنی کارروائیاں بڑھا رکھی ہیں۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک سرگرم کارکن میلاد سکندری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''امن مذاکرات کے دوران سیاسی اور عسکری دباؤ بڑھانا ایک عمومی عمل ہے۔ قندوز پر حملے کر کے طالبان اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ امن مذاکرات کے دوران وہ اس سے فائدہ حاصل کر پائیں۔‘‘
افغان طالبان تاہم اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب تک تمام فریق سیز فائر پر رضا مند نہیں ہو جاتے تب تک طالبان پر بھی حملے روکنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ طالبان کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز بھی ان کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
کیا صدر ٹرمپ کا مذاکرات ختم کرنا، امریکا میں طالبان اور افغان نمائندوں سے خفیہ ملاقات منسوخ کرنا کابل حکومت اور طالبان کے لیے پیغام ہے کہ معاہدہ طے کرنے کے لیے واشنگٹن حکومت ان سے لچک کا مظاہرہ چاہتی ہے؟ کیا ٹرمپ بھی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں؟
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
10 تصاویر1 | 10
اس بارے میں افغانستان کے سابق نائب وزیر دفاع تمیم آصی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میرا خیال ہے کہ طالبان رہنماؤں کو تشدد میں کمی لانے اور سیز فائر پر رضامند کرنے کے لیے یہ ٹرمپ کا نپا تلا قدم ہے۔‘‘
تاہم سکیورٹی امور کے پاکستانی ماہر علی کے چشتی کی رائے میں صدر ٹرمپ کا اعلان صرف 'ایک عارضی قدم‘ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے چشتی نے کہا، ''جیسا کہ ہم امریکی صدر کو جانتے ہیں، گمان غالب یہی ہے کہ وہ طالبان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امن مذاکرات اور پرتشدد کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ میری رائے میں اس تنازعے کے تمام فریق، امریکا، طالبان، کابل اور اسلام آباد، امن معاہدہ چاہتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام فریق اپنی اپنی شرائط پرامن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے واشنگٹن سے اپنے مطالبات ہیں۔ اشرف غنی افغانستان میں اٹھائیس ستمبر کو صدارتی انتخابات اور مستقبل میں ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے ہیں جس میں طالبان کو برتری حاصل نہ ہو۔ ماہرین کی رائے میں تمام فریق اپنی اپنی پوزیشن مضبوط بناتے ہوئے حصہ لینا چاہتے ہیں۔
طالبان 'بہت کم لچک دکھاتے ہوئے‘
طالبان کے دوحہ میں ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ ہفتے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان میں سیز فائر بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ شاہین کا کہنا تھا، ''کچھ معاملات نازک ہیں اور انہیں حل کرنے میں وقت لگے گا۔ لیکن مذاکرات (کے نویں دور میں) کافی پیش رفت ہوئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ آخری دور ہو گا۔‘‘
لیکن یہ دور بھی آخری ثابت نہں ہوا۔ لندن میں مقیم افغان صحافی سمیع یوسفزئی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری طالبان پرعائد کرتے ہیں۔ یوسفزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس تمام معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان موقعے کا فائدہ اٹھانے کے لیے سیاسی طور پر ابھی بھی پختہ نہیں ہوئے۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران طالبان کے زیادہ تر مطالبات مان لیے گئے تھے اس کے باوجود جب خلیل زاد کابل گئے تو طالبان نے ایک خونریز حملہ کر دیا۔ امن معاہدہ اب بھی بچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے طالبان کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔‘‘
یوسفزئی کی رائے میں اگر طالبان ملک گیر سیز فائر پر رضامند ہوتے ہیں تو امریکا مذاکرات کی میز پر واپس آ سکتا ہے۔
تاہم کچھ تجزیہ نگار ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ امن معاہدے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ لاہور میں مقیم ایک تجزیہ نگار طاہر مہدی کا کہنا تھا، ''طالبان نے بہت کم اور بہت دیر سے لچک دکھائی ہے۔‘‘