ٹرمپ نے غلطی سے اطالوی ریستوراں کے مالک پر بھی پابندی لگا دی
2 اپریل 2021
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری میں اپنے اقتدار کے آخری چوبیس گھنٹوں میں جلدی میں فیصلے کرتے ہوئے ایک بڑی غلطی کی تھی۔ اس روز غلطی سے امریکی حکومت نے اٹلی میں ایک ریستوراں کے بے قصور مالک پر بھی پابندیاں لگا دی تھیں۔
اشتہار
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ اٹلی کے شہر ویرونا کے ایک مقامی ریستوراں کے مالک کے ساتھ پیش آیا، جس کا نام آلیساندرو بازونی ہے۔ امریکی حکومت کا تقریباﹰ ڈھائی ماہ قبل بیس جنوری کو ٹرمپ کے جانشین صدر جو بائیڈن کی حلف برداری سے پہلے کیا جانے والا یہ فیصلہ انیس جنوری کو کیا گیا تھا۔ انیس جنوری ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار کا آخری پورا دن تھا۔
جلدی میں کیے گئے بہت سے فیصلے
اس روز ٹرمپ حکومت نے جلدی میں بہت سے ایسے فیصلے کیے تھے، جن کے لیے وقت بظاہر کم پڑ گیا تھا۔ تب امریکی محکمہ خزانہ نے وینزویلا پر عائد واشنگٹن کی پابندیوں کی وجہ سے متعدد ایسے اقدامات بھی کیے تھے، جن کا تعلق لاطینی امریکی ملک وینزویلا سے خام تیل خریدنے کی کوششیں کرنے والے اداروں اور افراد کو سزا دینے سے تھا۔
یہ پابندیاں اس لیے عائد کی گئی تھیں کہ صدر ٹرمپ وینزویلا کے (تاحال) صدر مادورو پر بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور 2018ء میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگانے کے بعد مادورو کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ قبل ازیں ٹرمپ نے وینزویلا کی سرکاری تیل کمپنی پیٹرولیوس دے وینزویلا پر بھی پابندیاں لگا دی تھیں۔
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
ایک ہی نام کی دو مختلف شخصیات
امریکی محکمہ خزانہ صدر ٹرمپ کے دور اقتدار کے آخری دن امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی اور وینزویلا سے خام تیل خریدنے کی کوششوں کے باعث جس شخص اور اس کی کمپنیوں پر پابندیاں لگانا چاہتا تھا، اس کا نام بھی آلیساندرو بازونی تھا۔
مگر ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ پابندیاں اس بازونی پر لگا دی گئیں، جو اٹلی کے شہر پورٹو ٹوریس میں ایک گرافک ڈیزائن کمپنی اور اطالوی شہر ویرونا میں ایک ریستوراں کا مالک ہے۔
اشتہار
معصوم بازونی اب مطمئن
بے قصور بازونی نے ویرونا میں اپنے ریستوراں سے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جمعرات اکتیس مارچ کے روز بتایا، ''یہ سیدھی سیدھی ایک غلطی تھی۔‘‘
انہوں نے کہا، ''امریکی محکمہ خزانہ نے یہ مسئلہ اب حل کر لیا ہے۔ اب میں اس میں مزید ملوث نہیں رہنا چاہتا۔ شکر ہے ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور چند ہی ماہ میں اس غلطی کی اصلاح بھی کر دی گئی۔‘‘
جنوبی امریکی ملک وینزویلا اس وقت سنگین سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ مادورو حکومت اور پارلیمانی اسپیکر خوان گوائیڈو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی بڑے خون خرابے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez/F. Parra
نکولس مادورو
نکولس مادورو وینزویلا کے چھیالیسویں صدر ہیں۔ انہوں نے منصب صدارت انیس اپریل سن 2013 کو سنبھالا تھا۔ وہ اپنے پیش رو صدر ہوگو چاویز کے نائب بھی تھے۔ اب مادورو ایک مرتبہ پھر متنازعہ انتخابی کے بعد دوبارہ صدر ضرور منتخب ہو چکے ہیں لیکن اس وقت اُن کی صدارت کو پارلیمانی اسپیکر خوان گوائیڈو نے چیلنج کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Quintero
وینزویلا کی فوج مادورو کے ساتھ ہے
وینزویلا کے وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرو لوپیز نے ملکی ٹیلی وژن پر اپنی فوج کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ واضح کیا ہے کہ تمام افسران صدر نکولس مادورو کے ساتھ کھڑے ہیں اور ملکی استحکام کے مخالف کیے جانے والے ہر اقدام کی مخالفت کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Robayo
نکولس مادورو کی عوامی رابطہ کاری
نکولس مادورو نے بھی جنوری سن 2019 کے دوران ایک عوامی جلسے میں شرکت کی۔ یہ جلسہ وینزویلا کے ڈکٹیٹر مارکوس پیریز خیمینیز کے اقتدار کے خاتمے کی اکسٹھ برس مکمل ہونے پر دارالحکومت کاراکس میں منعقد کیا گیا تھا۔ خیمینیز کے اقتدار کا خاتمہ تیئیس جنوری سن 1958 کو ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/Miraflores Palace
مادورو کے حمایتی سیاستدان
نکولس مادورو کی حمایت میں اُن کے بعض حامی سیاستدان بھی متحرک ہیں۔ زیر نظر تصویر میں وینزویلا کی دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈیئوس ڈاڈو کابیو ملکی دارالحکومت میں نکولس مادورو کی حمایت میں منعقدہ جلسے میں تقریر کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Torrealba
وینزویلا کی عوامی بے چینی
وینزویلا کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران نے سارے ملک میں سماجی و معاشرتی مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ ہزاروں افراد ملکی حالات کے باعث ہمسایہ ممالک میں بطور مہاجر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ہنڈراس میں وینزویلا کے مہاجرین نکولس مادورو کے خلاف جلوس نکالے ہوئے۔
تصویر: Reuters/
خوان گوائیڈو
نوجوان سیاستدان خوان گوائیڈو وینزویلا کی پارلیمان کے اسپیکر ہیں۔ انہوں نے تیئیس جنوری سن 2019 کو ملک کا عبوری صدر ہونے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کے اعلان کی حمایت کی ہے۔ اب تک کئی ممالک نے گوائیڈو کو وینزویلا کا عبوری صدر تسلیم کر لیا ہے۔ ابھی جرمنی اور یورپی یونین نے انہیں عبوری صدر کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن وینزویلا کی اپوزیشن کی حمایت ضرور کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Parra
گوائیڈو کی حمایت میں ’سبھی متفق‘
وینزویلا کے مختلف طبقوں نے عملی طور پر جلسے جلوسوں کی صورت میں خوان گوائیڈو کی حمایت کی ہے۔ ملک کی ساری اپوزیشن بھی نوجوان سیاستدان کے ہمراہ ہے۔
تصویر: Reuters/
عوام کاراکس کی سڑکوں پر تبدیلی کے منتظر
وینزویلا کا دارالحکومت خوان گوائیڈو کے حامیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہزار ہا افراد ملک کے مختلف حصوں سے دارالحکومت کی گلیوں اور سڑکوں پر کسی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ مادورو مخالف جلوسوں کے شرکاء کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ اب تک ایسی جھڑپوں میں ہلاک شدگان کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تیئیس جنوری، اپوزیشن کی ریلی
وینزویلا میں سابق ڈکٹیٹر مارکوس پیریز کے زوال کا دن انتہائی اہم سیاسی بیداری کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ تیئیس جنوری سن 2019 کووینزویلا کے ہزارہا افراد ملکی اپوزیشن کی ریلی میں شریک ہوئے اور انہوں نے مادورو حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اسی روز خوان گوائیڈو نے عبوری صدر ہونے کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Loureiro
خوان گوائیڈو: ایک نئی امید
تقریباً چھتیس سالہ خوان گوائیڈو کو وینزویلا کے سیاست دانوں کی نئی نسل کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ انہیں پانچ جنوری سن 2019 کو ملکی قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ طالب علمی کے دور سے ہی سیاست میں متحرک ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اُن کی مقبولیت اور عوامی حمایت وینزویلا میں کسی تبدیلی کا آئنہ دار ہو سکتی ہے۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خزانہ نے بھی بدھ تیس مارچ کے روز تصدیق کر دی تھی کہ اٹلی میں ایک ریستوراں اور ایک گرافک ڈیزائننگ کمپنی اور ان کے مالک آلیساندرو بازونی پر لگائی گئی پابندیاں غلط فہمی کا نتیجہ تھیں، جن کی اب اصلاح کر دی گئی ہے۔
محکمہ خزانہ کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ یہ اطالوی کمپنیاں ایک ایسے شخص کی ملکیت ہیں، جو اس آلیساندرو بازونی سے مختلف ہے، جس کے خلاف پابندیاں لگانا مقصود تھا۔
امریکا میں پابندیوں سے متعلقہ قوانین کی ماہر ایک فرم ملر اینڈ شیویلیئر کے ٹِم اوٹُول نے روئٹرز کو بتایا، ''ٹرمپ انتظامیہ کے پاس اس کے اقتدار کے آخری پورے دن کرنے کے لیے بہت سے کام تھے۔ وہ جلدی جلدی وینزویلا، ایران اور چین سے متعلق بہت سے فیصلے کر رہی تھی۔ جب آپ سب کچھ بہت تیزی سے کرتے ہیں، تو پھر غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔‘‘
م م / ک م (روئٹرز)
’قلت، ہنگامہ آرائی،خشک سالی‘ وینزویلا مشکل میں
وینزویلا کا شمار تیل برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں نے اس ملک کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ گزشتہ برس کے دوران وینزویلا میں افراط زر میں 180 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EFE/M. Gutiérrez
افراط زر معیشت کو نگل رہی ہے
ضرورت سے زیادہ افراط زر سے وینزویلا میں کاروبار زندگی ایک طرح سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے مقامی اور بین الاقوامی کاروباری اداروں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ کرنسی کی قدر مسلسل نیچے جا رہی ہے اور حکومت نے بولیواز کی امریکی ڈالر میں منتقلی کو مشکل بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Ismar
اشیاء کی قلت
اس لاطینی امریکی ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی بھی شدید قلت ہو چکی ہے۔ اکثر سپر مارکیٹوں کی الماریاں خالی دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
قطار در قطار
کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں خریدنے کے لیے شہریوں کو لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ صرف مخصوص مقامات پر ہی ضروری اشیاء دستیاب ہیں۔ یہ کاراکس کے ایک غریب علاقے میں ایک دکان کے باہرکا منظر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
دستخط جمع کیے جا رہے ہیں
وینزویلا میں حزب اختلاف کے رہنما چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے اور اس مقصد کے لیے شہریوں کے دستخط جمع کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے انہیں کم از کم بیس لاکھ دستخطوں کی ضرورت ہے اور ابھی تک اٹھارہ لاکھ افراداس دستاویز پر دستخط ثبت کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کی اجازت
حزب اختلاف کے رہنما ہینریکے کاپرلس نے صحافیوں کو بتایا کہ ملکی الیکشن کمیشن نے ریفرنڈم کرانے کے اجازت دے دی ہے۔ لیکن صدر نکولس مادورو کی حکومت اس سلسلے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ریفرنڈم کے لیے احتجاج
شہری حکومت سے ریفرنڈم جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اکثر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Bello
طلبہ احتجاج
احتجاج کے معاملے میں طلبہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ یہ لوگ ملک کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور ریفرنڈم کو ملتوی کرنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف سراپا احتجاج بننے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schemidt
خشک سالی
وینزویلا کے مسائل میں شدید خشک سالی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ملک کے ایک بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم میں اب پانی کی بجائےصرف مٹی اور کیچڑ ہی دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
تباہی کی شدت
ملکی توانائی کا سب سے زیادہ انحصار گوری ڈیم پر ہے اور یہیں سے پانی کی دیگر ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے ڈیموں میں ہوتا ہے۔ تاہم پانی کا ذخیرہ کم ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے اور بجلی کی بھی شدت قلت ہے۔
تصویر: Reuters/C.G. Rawlins
صحت کے شعبے کی زبوں حالی
اولیور سانچیز کی عمر آٹھ سال ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں میں جو کارڈ اٹھائے ہوئے ہے اس پر درج ہے، ’’میں صحت مند ہونا چاہتا ہوں، میں امن چاہتا ہوں میں ادویات چاہتا ہوں۔‘‘ سانچیز کاراکس میں ادویات کی عدم دستیابی کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں شریک تھا۔ وینزویلا میں آج کل ادویات بھی نایاب ہو چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Cubillos
صدر مادورو ہدف تنقید
وینزویلا کی معیشت میں یہ ابتری عالمی منڈی میں خام تیل کی گرتی ہوتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس ملک کی معیشت تقریباً پچاس فیصد سکڑ گئی ہے۔ عوام صدر نکولس مادورو کو بجلی اور اشیاء خوردو نوش کی قلت کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔