ٹرمپ نے فان گوخ کی پینٹنگ مانگی، جواب ملا ’ٹائلٹ لے لو‘
مقبول ملک روئٹرز
28 جنوری 2018
امریکی میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل نیو یارک کے مشہور زمانہ گوگن ہائم میوزیم سے فان گوخ کی ایک پینٹنگ مستعار مانگی تو انہیں انکار کے ساتھ جواباﹰ ایک گولڈن ٹائلٹ ادھار لینے کی پیشکش کر دی گئی۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ’سوال پینٹنگ، جواب ٹائلٹ‘ کا یہ واقعہ گزشتہ برس موسم خزاں میں پیش آیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے نیو یارک کے گوگن ہائم میوزیم سے، جہاں دنیا کے بہت سے عظیم مصوروں اور دیگر فن کاروں کے شہ پارے موجود ہیں، یہ درخواست کی گئی تھی کہ وائٹ ہاؤس کو عظیم ڈچ مصور وِنسَینٹ فان گوخ کی ایک پینٹنگ مستعار دے دی جائے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس درخواست پر گوگن ہائم عجائب گھر کی خاتون مہتمم اعلیٰ نے گزشتہ برس پندرہ ستمر کو وائٹ ہاؤس کو ایک جوابی ای میل لکھی، جس میں یہ پیش کش کی گئی تھی کہ اگر صدارتی رہائش گاہ کی انتظامیہ چاہے تو میوزیم اسے اٹھارہ قیراط سونے کی بنی ایک ایسی گولڈن ٹائلٹ ادھار دے سکتا ہے، جسے تب تک ہزارہا مہمان استعمال کر چکے تھے۔
روئٹرز کے مطابق یہ بات واضح نہیں کہ فان گوخ کی ایک شاہکار پینٹنگ ادھار لینے کی خواہش کے جواب میں وائٹ ہاؤس کو ایک سنہری ٹائلٹ پر گزارہ کرنے کی اس پیشکش کے جواب میں امریکی صدر کی رہائش گاہ کی طرف سے کیا جواب دیا گیا تھا۔
تاہم اس بارے میں اب روئٹرز نے واشنگٹن پوسٹ کی جمعرات پچیس جنوری کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب نیو یارک میں گوگن ہائم میوزیم کے ترجمان اور واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس سے ان دونوں کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی، تو دونوں ہی کی طرف سے کسی بھی تبصرے سے انکار کر دیا گیا۔
گوگن ہائم میوزیم کے ایک بلاگ کے مطابق وائٹ ہاؤس کو جو گولڈن ٹائلٹ ادھار لینے کی پیشکش کی گئی تھی، وہ اطالوی آرٹسٹ ماریسیو کاتیلان کی 18 قیراط سونے سے بنائی ہوئی ایک ایسی ٹائلٹ ہے، جسے ’امریکا‘ کا نام دیا گیا ہے اور جو ایک عام ٹائلٹ کی طرح استعمال کی جا سکتی ہے۔
سونے کی بنی اس ٹائلٹ ’امریکا‘ کو 2016ء میں گوگن ہائم کے ایک باتھ روم میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا، اور اسے نجی حیثیت میں ایک ’لگژری تجربے‘ کے طور پر اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد استعمال کر چکے ہیں۔
فریبِ نظر: جانور یا انسان، آپ کا امتحان
’باڈی پینٹنگ‘ یا ’باڈی آرٹ‘ میں پینٹ کے رنگ براہِ راست انسانی جلد پر لگائے جاتے ہیں تاہم یہ رنگ مستقل نہیں ہوتے اور چند گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ چند دنوں میں اتر جاتے ہیں۔
تصویر: Johannes Stötter
کیا اس تصویر میں آپ کو ایک گرگٹ نظرآ رہا ہے؟
یوہانیس شٹوئٹر کا تعلق اٹلی سے ہے۔ وہ ایک فنکار ہے، جس کا کینوس انسانی جسم ہیں۔ وہ انسانی جسموں کو کچھ اس انداز سے پینٹ کرتا ہے کہ انسان کسی اور ہی منظر میں تحلیل ہو جاتا ہے یا کسی جانور کا روپ دھار لیتا ہے۔ گرگٹ کی اس تصویر میں دراصل دو انسانی جسم چُھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: Johannes Stötter
اور یہ طوطا ...
... بھی غیر حقیقی ہے۔ یوہانیس شٹوئٹر کو یہ فریبِ نظر تخلیق کرنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔ یوہانیس شٹوئٹر نے اپنے ماڈلز کے بدن پر اس طرح سے رنگ بکھیرے ہیں کہ وہ انسان نہیں بلکہ بظاہر مینڈک، طوطے اور گرگٹ نظر آتے ہیں۔ اُس کا تشکیل کردہ فریبِ نظر تقریباً مکمل ہے۔ انسان غائب ہو جاتے ہیں اور آنکھ صرف ایک جانور کی شبیہ دیکھتی ہے۔
تصویر: Johannes Stötter
مینڈک بنانے کے عمل ...
... میں پانچ گھنٹے صرف ہوئے جبکہ انسانی کینوس بھی پانچ ہی صرف ہوئے۔ اس تصویر میں پانچ انسانی جسم چھُپے ہوئے ہیں۔ کیا آپ سب کو شناخت کر پائے؟
تصویر: Johannes Stötter
یہ ہیں یوہانیس شٹوئٹر ...
... جو دو اکتوبر 2014ء کی اس تصویر میں اپنے ماڈل جان لیونارڈو کے جسم پر پینٹ کر رہے ہیں۔ امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں کیموفلاج پینٹنگ کا یہ مظاہرہ امریکا میں باڈی پینٹنگ کی چیمپئن شپ کا ایک حصہ تھا۔ شٹوئٹر فریبِ نظر تخلیق کرنے میں کتنا کامیاب رہے، یہ دیکھیں اگلی تصویر میں ...
تصویر: picture-alliance/dpa/E.S. Lesser
اٹلانٹا کا منظر انسانی بدن پر
یوہانیس شٹوئٹر نے اپنے ماڈل جان لیونارڈو کے جسم پر کچھ اس طرح سے رنگ لگائے ہیں کہ اُس کا بدن امریکی شہر اٹلانٹا کے مرکزی حصے کی بلند و بالا عمارتوں میں تحلیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.S. Lesser
ایک اور ماڈل ...
... امریکا کی طرح آج کل دنیا کے مختلف ملکوں میں باڈی پینٹگ کے باقاعدہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ یہ تصویر یورپی ملک آسٹریا میں 2013ء میں منعقد ہونے والے ایک ورلڈ باڈی پینٹنگ فیسٹیول کی ہے، جس میں دنیا کے چالیس ملکوں سے گئے ہوئے فنکاروں نے شرکت کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
باڈی پینٹنگ ایک مقصد کے لیے
2013ء کی اس تصویر میں ورلڈ اینیمل ڈے کے موقع پر جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے کارکنوں نے اپنے چہرے پینٹ کر رکھے ہیں۔ اس طرح وہ ’بُل فائٹنگ‘ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
تصویر: RAUL ARBOLEDA/AFP/Getty Images
رنگ، رونق، ہنگامہ
یہ تصویر بھی جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں منعقد ہونے والے اُس مقابلے کی ہے، جس میں پوری دنیا سے گئے ہوئے ایسے فنکار شریک ہوئے، جو انسانی بدن پر پینٹ کرتے ہوئے باڈی آرٹ کے نت نئے نمونے تخلیق کرتےہیں۔
’باڈی آرٹ‘ میں نہ صرف جسم پر پینٹ کے رنگ لگائے جاتے ہیں بلکہ اضافی چیزیں چسپاں کرتے ہوئے جسم کی پوری ہیئت ہی بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ انسان قدیم زمانے سے جسم پر نقش و نگار بناتا چلا آرہا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے نقش و نگار مقامی ثقافت کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں۔
9 تصاویر1 | 9
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے گوگن ہائم میوزیم سے انیسویں صدی کے عظیم ڈچ مصور فان گوخ کی جو شاہکار پینٹنگ مستعار لینے کی خواہش کی تھی، اس کا عنوان Landscape with Snow یا ’برفیلا لینڈ اسکیپ‘ ہے اور اسے صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کے وائٹ ہاؤس کے نجی رہائش والے حصے میں کچھ عرصے کے لیے ایک دیوار پر آویزاں کیا جانا تھا لیکن میوزیم کی چیف کیوریٹر نیسنی سپیکٹر نے یہ درخواست مسترد کر دی۔
روئٹرز کے مطابق اپنے ایک بلاگ میں اس امریکی عجائب گھر کی مہتمم اعلیٰ نینسی سپیکٹر نے اسی گولڈن ٹائلٹ کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ برس یہ بھی لکھا تھا، ’’ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے بعد سے بہت سی شہری آزادیاں محدود کر چکے ہیں اور ان کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی حقیقت سے انکار نے ہمارے واحد سیارے کے طور پر زمین کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘‘
جب جسم رنگوں میں بدل گئے
جنوبی کوریا میں ہونے والے باڈی پینٹنگ کے ایک مقابلے میں دنیا بھر سے آئے ہوئے آرٹسٹوں اور ماڈلز نے شرکت کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
سنور کے آئنہ تکتے ہوئے
جنوبی کوریا میں ہونے والے باڈی پینٹنگ فیسٹیول میں شریک ایک ماڈل پرفارمنس کے لیے تیار ہے۔ تاہم اسٹیج پر جانے سے قبل وہ ہرطرح سے مطمئن ہونا چاہتی ہے۔ اس فیسٹیول میں دس مختلف ممالک کے فن کاروں نے اپنے جوہر دکھائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
بیک اسٹیج
ڈائے گو کے دو روزہ ’بین الاقوامی باڈی پینٹنگ فیسٹیول‘ کے دوسرے اور آخری دن دو ماڈلز اسٹیج پر جانے کی تیاری میں ہیں۔ ان خواتین ماڈلز کے جسموں کو خوبصورت انداز میں رنگا گیا۔ یہ فیسٹیول چھبیس اور ستائیس اگست کو منعقد ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
مصروف آرٹسٹ
جاپانی فن کار آواسکی ماسا کاسو ایک ماڈل کے جسم پر نقش ونگار بنا رہے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر وہ اسپرے کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ ایک اور آرٹسٹ برش کی مدد سے جسم پر کی گئی پینٹنگ کے خطوط کو نکھار رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
ماڈل تیار
جاپانی آرٹسٹ آواسکی ماسا کاسو اس ماڈل کے جسم کو رنگ چکے ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والی امریکی ماڈل نیوم میلن برگ کے بقول اس ایونٹ میں شرکت کی خاطر پہلی مرتبہ انہوں نے اپنے جسم پر پینٹنگ کرائی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
ایک منفرد انداز
کسی ماڈل کے جسم کو مکمل انداز میں رنگوں سے چھپانے میں چھ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس آرٹ کو آج کل دنیا میں بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے، جس میں انسانی جسم ایک تصویری کہانی بیان کرتا نظر آتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
محنت طلب کام
جسم پر پینٹ کرنا ایک مہارت کا کام تو ہے ہی لیکن ماڈلز کو بھی کافی کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہاتھ سے کیے گئے پینٹ کی خاطر ماڈلز کو کئی گھنٹوں تک ساکت و جامد کھڑا بھی رہنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
اپنے سائے کے ساتھ
’بین الاقوامی باڈی پینٹنگ فیسٹیول‘ میں ایک پرفارمنس کے دوران ایک ماڈل اطالوی آرٹسٹ ایمانوئل بوریلو کی کاری گری کی نمائش کر رہی ہیں۔ اس فیسٹیول کا پہلی مرتبہ انعقاد سن دو ہزار آٹھ میں کیا گیا تھا۔ اس فیسٹیول میں باڈی پینٹنگ کے مقابلے کے ساتھ ساتھ موسیقی کی محفلیں بھی سجتی ہیں اور شرکا کی دلچسپی کے لیے انٹرٹینمنٹ کے دیگر شوز منعقد کیے جاتے ہیں۔