ٹرمپ نے ٹیکس فراڈ سے کئی ملین ڈالر بنائے، نیو یارک ٹائمز
3 اکتوبر 2018
اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے ماضی میں غیر قانونی ٹیکس اسکیموں کے ذریعے سینکڑوں ملین ڈالر حاصل کیے۔ دھوکہ دہی کی ایسی زیادہ تر کارروائیاں انیس سو نوے کی دہائی میں کی گئی تھیں۔
اشتہار
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی یہ تازہ تحقیقاتی رپورٹ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کی بھی نفی کرتی ہے، جس کے مطابق انہوں نے اپنے بزنس مین والد فریڈ ٹرمپ سے ایک چھوٹا سا قرض لیتے ہوئے کئی ارب ڈالر کی ریئل اسٹیٹ سلطنت کھڑی کی ہے۔ نیو یارک کے اس اخبار کی تحقیقاتی رپورٹ میں مندرجہ ذیل دعوے کیے گئے ہیں:
- بچین میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے والد کی ریئل اسٹیٹ املاک میں سے 413 ملین ڈالر دیے گئے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک یہ کہتے آئے ہیں کہ انہیں اپنے والد کی طرف سے کاروبار کے آغاز کے لیے صرف ایک ملین ڈالر کا قرض دیا گیا تھا۔
ٹرمپ اور ان کے بھائیوں نے قابل اعتراض ٹیکس اسکیموں کا آغاز کرتے ہوئے ٹیکس فراڈ کرنے میں اپنے والد کی مدد کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق کئی نئی کارپوریشنیں قائم کرتے ہوئے غلط قسم کی ٹیکس رعایتیں حاصل کی گئیں جبکہ امریکی ٹیکس حکام کے سامنے ریئل اسٹیٹ ہولڈنگز کی قیمتیں بھی کم بتائی گئی تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے والدین نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کو ایک ارب ڈالر منتقل کیے تھے۔ ان منتقلیوں پر 550 ملین ڈالر ٹیکس کی ادائیگی بنتی تھی لیکن ٹرمپ خاندان نے ہیرا پھیری کرتے ہوئے اس کا دس فیصد سے بھی کم یعنی 52.2 ملین ڈالر ٹیکس ادا کیا تھا۔
یہ تحقیقاتی رپورٹ فریڈ ٹرمپ کے کاروبار سے متعلق ایک لاکھ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ٹیکس سے متعلق دستاویزات اور خفیہ ریکارڈز کے ساتھ ساتھ سابق ملازمین اور مشیروں کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز نے واضح کیا ہے کہ اس تحقیقاتی رپورٹ میں امریکی صدر کی ذاتی دولت اور ٹیکس سے متعلق دستاویزات شامل نہیں ہیں تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی دولت کا ان کے والد کی دولت کے ساتھ ’گہرا تعلق اور انحصار‘ ہے۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ صدر ٹرمپ کے ان دعووں کے بھی برعکس ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر اتنی بڑی کاروباری شخصیت بنے ہیں۔
اس رپورٹ سے امریکی ٹیکس حکام ٹرمپ خاندان کی دولت اور ٹیکس کے حوالے سے وسیع تر تحقیقات کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دھوکا دہی ثابت ہونے کی صورت میں ٹیکس فراڈ کے باعث سول جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔
دریں اثناء وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا ہے۔ بیان میں نیو یارک ٹائمز اور میڈیا کے دیگر ادراوں کو صدر اور ان کے اہل خانہ پر مبینہ ’مسلسل حملے‘ کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
ا ا / م م
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔