سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے 1963 میں قتل سے متعلق غیر شائع شدہ فائلیں منگل کو جاری کی گئیں۔ ان کی موت کے حوالے سے سازشی نظریات چھ دہائی بعد بھی موضوع بحث ہیں۔
جان ایف کینیڈی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن تھےتصویر: AP Photo/picture-alliance
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کو سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق ہزاروں خفیہ دستاویزات جاری کیں۔
یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد کیا گیا ہے، جس میں کینیڈی کے قتل کے بارے میں غیر شائع شدہ سرکاری فائلوں کو جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ٹرمپ کا اندازہ ہے کہ 80,000 سے زیادہ نئے صفحات جاری کیے جائیں گے۔
گزشتہ دہائیوں میں، حکام پہلے ہی دسیوں ہزار دستاویزات جاری کر چکے ہیں۔
کینیڈی کو نومبر 1963 میں ڈیلاس، ٹیکساس کے دورے کے دوران گولی مار دی گئی تھیتصویر: James W. "Ike" Altgens/AP Photo/picture alliance
'نتیجہ اخذ کرنے میں وقت لگے گا'
جان ایف کینیڈی پر تحقیقات کرنے والے ماہرین نے کہا کہ ان کی کئی ٹیمیں نئے مواد کی چھان پھٹک کر رہی ہیں اور فائلوں کے اس سیلاب سے نتیجہ اخذ کرنے میں وقت لگے گا۔
یونیورسٹی آف ورجینیا میں سینٹر فار پولیٹکس کے ڈائریکٹر اور "دی کینیڈی ہاف سنچری" کے مصنف لیری جے سباتو نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا، "ہمارے پاس آنے والے طویل عرصے میں بہت سا کام کرنا ہے، اور لوگوں کو اسے قبول کرنا چاہیے۔"
کینیڈی کے قتل کی ذمہ داری ایک واحد بندوق بردار لی ہاروی اوسوالڈ سے منسوب کی جاتی ہے، جو ایک سابق میرین اہلکار تھے اور ٹیکساس واپسی سے قبل سوویت یونین سے منحرف ہو گئے تھے۔
لیکن رائے شماری سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے امریکی اب بھی مانتے ہیں کہ ان کی موت ایک سازش کا نتیجہ تھی۔
کانگریس نے انیس سو بانوے میں تحقیقات سے متعلق تمام دستاویزات 25 سال کے اندر جاری کرنے کا قانون پاس کیا تھا۔
اپنی پہلی مدت میں ٹرمپ اور صدر جو بائیڈن دونوں نے کینیڈی سے متعلق دستاویزات کا ڈھیر جاری کیا، لیکن ہزاروں فائلیں ابھی تک جزوی یا مکمل طور پر خفیہ ہیں۔
ڈیلاس، 22نومبر 1963ء: جان ایف کینیڈی کا قتل
امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو ڈیلاس میں 22نومبر 1963ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کو لگنے والی گولی مغربی دُنیا کے دِل سے ہو کر گزری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گولی جس نے مغربی دنیا کا دِل چیر دیا
ڈیلاس کے مقامی وقت کے مطابق دِن 12 بج کر 31 منٹ پر امریکی صدر جان ایف کینیڈی (جے ایف کے) کو متعدد گولیاں ماری گئیں۔ یہ منظر کیمروں نے ریکارڈ کر لیا۔ صدر کے دِل اور سر پر گولیاں لگیں۔ اس وقت ان کی اہلیہ جیکی کینیڈی اور ان کے میزبان، ٹیکساس کے گورنر جان کونیلی اپنی اہلیہ نیلی کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ کونیلی بھی شدید زخمی ہوئے۔ آج بھی اس بات کا پتہ نہیں کہ صدر کو کتنی گولیاں لگیں۔
تصویر: Getty Images/Three Lions/Hulton Archive
اس دِن تاریخ بدل گئی
وہ جمعے کا روشن دِن تھا جب امریکی صدر اور خاتون اوّل ڈیلاس ایئرپورٹ پر پہنچے۔ قدامت پسند ریاست ٹیکساس میں ان کی انتخابی مہم کا یہ دوسرا دِن تھا۔ شہر سے کارواں گزرنے سے پہلے انہوں نے خود ہی اپنی لیموزِن کا اوپری حصہ کھولنے کی تجویز دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP
صدر نہیں رہے
اپنی آمد کے ایک گھنٹہ بعد، امریکا کے 35ویں صدر کو ڈیلے پلازہ کے قریب گولیاں ماری گئیں۔ انہیں پارک لینڈ میموریل ہسپتال پہنچایا گیا تو ان کے دِل کی دھڑکن باقی تھی، لیکن ان کے سر پر لگنے والی گولی نے ان کا بچنا مشکل بنا دیا اور وہ دم توڑ گئے۔ اس وقت ان کی عمر 46 برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
واشنگٹن کو واپسی
نائب صدر لِنڈن بی جانسن نے ایئرفورس وَن پر ہی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس وقت جیکی کینیڈی بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں جب کہ جان ایف کینیڈی کا جسدِ خاکی بھی طیارے پر ہی تھا، جسے پوسٹ مارٹم کے لیے واشنگٹن لے جایا جا رہا تھا۔ اس کے چار روز بعد، جانسن نے قتل کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا۔ تاہم وارن کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے تفتیش کے نتائج متنازعہ رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
مشتبہ قاتل لی ہاروی اوسویلڈ
صدر پر گولیاں بظاہر ایک پبلیشنگ ہاؤس کی چھٹی منزل سے چلائی گئی تھیں۔ اس میں استعمال ہونے والی بندوق لی ہاروی اوسویلڈ کی تھی جسے دراصل صدر پر حملے سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد ایک پولیس اہلکار کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اوسویلڈ سے تفتیش کے دوران پولیس نے اس پر صدر کے قتل کا شبہ ظاہر کیا۔ تاہم اس نے قتل کی دونوں وارداتوں میں ملوث ہونے کے الزام سے انکار کیا۔
تصویر: Reuters
’ثبوت مٹ گیا‘
24 نومبر اوسویلڈ کو ایک دوسری جیل میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ایک ٹیلی وژن کا عملہ اس کارروائی کو ریکارڈ کر رہا تھا کہ ایک نائٹ کلب کا مالک جیک رُوبی نے مشتبہ قاتل کے سامنے آ کر اسے گولی مار دی۔ لاکھوں لوگوں نے یہ منظر ٹیلی وژن پر دیکھا۔ اوسویلڈ کو بھی پارک میموریل ہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ چل بسا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عوام سَکتے میں
آرلنگٹن کے نیشنل قبرستان میں 25 نومبر کو صدر کی تدفین ہوئی۔ ان کے اس آخری سفر میں لاکھوں لوگ قبرستان جانے والے راستوں پر موجود تھے۔ ان کی میموریل سروس کو دنیا بھر میں ٹیلی وژن پر دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP
آخری سفر
جے ایف کے کی موت کے بعد، جیکی اپنے شوہر سے جدائی کے غم میں ڈوبی ہوئی تھیں جب کہ امریکی قوم ایسے سیاسی رہنما کے بچھڑنے کا سوگ منا رہی تھی جس نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ واشنگٹن کے سینٹ میتھیوکیتھیڈرل میں میموریل سروس کے بعد کینیڈی کے دو بھائی اور ان کی بیوہ تابوت کے ساتھ قبرستان روانہ ہوئے۔ پانچ سال بعد رابرٹ کینیڈی بھی ایک قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے۔
تصویر: Getty Images/Keystone
وہ ’برلن کے شہری‘ تھے
جرمنی میں بھی جان ایف کینیڈی کی موت کا سوگ منایا گیا۔ بالخصوص مغربی برلن میں، جہاں جے ایف کے نے اگست 1963ء میں ایک دورے میں خود کو برلن کا شہری قرار دیا تھا۔ اس بناء وہ برلن میں خاصے مقبول تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg
جیک کی جدائی
کینیڈی کی مدت صدارت 1961ء تا 1963ء سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں ہی دیوارِ برلن، کیوبا کے میزائل کا تنازعہ اور ویت نام کی جنگ سامنے آئی۔ بہت سے لوگوں کے لیے وہ ایک نوجوان اور کرشماتی صدر تھے اور وہ انہیں ’جیک‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ انہیں امریکا کے لیے ایک نئے دَور بھی بھی تعبیر کیا جاتا تھا۔ ان کا قتل امریکی شعور کے لیے ایک خوفناک دھچکا تھا۔