1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ ٹوئٹر سے ناراض ہوئے تو ۔۔۔ قانون ہی بدل دیا

29 مئی 2020

صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر سے ناراض ہونے کے صرف دو روز بعد سوشل میڈیا اداروں کو حاصل قانونی تحفظ کے خاتمے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے۔ ٹوئٹر نے اسی ہفتے ٹرمپ کی ٹویٹس کا ’فیکٹ چیک‘ کیا تھا، جن میں غیر مصدقہ حقائق پائے گئے تھے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے ہیں، وہ اس ملکی قانون کو ختم یا تبدیل کر دے گا، جس کے تحت سوشل میڈیا اداروں کو اپنے خلاف قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل ہے۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کسی بھی تیسرے فریق (عام صارف) کی طرف سے پوسٹ کردہ کسی بھی مواد کے لیے ان کمپنیوں کو جواب دہ نہیں بنایا جا سکتا۔

اس حکم نامے کے بعد لیکن سوشل میڈیا اداروں کو آئندہ اپنے خلاف قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل نہیں رہے گا۔ اس قانون کو امریکا میں عرف عام میں سیکشن 230 بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت سوشل میڈیا ادارے اس مواد کے لیے ذمے دار نہیں ٹھہرائے جا سکتے، جو ان پلیٹ فارمز پر صارفین پوسٹ کرتے ہیں۔

ٹرمپ کی ٹویٹس کا فیکٹ چیک

امریکی صدر کے اس حوالے سے تازہ سرکاری حکم نامے کا پس منظر یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل ہی ٹوئٹر نے پہلی مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹس کو ان میں کہی گئی باتوں کی سچائی کے حوالے سے پرکھا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ان میں ایسے دعوے بھی کیے گئے تھے، جن کی بنیادیں مشکوک یا غیر تسلی بخش تھیں۔ ٹوئٹر کے اس اقدام پر صدر ٹرمپ بہت ناراض ہوئے تھے اور انہوں نے شدید تنقید بھی کی تھی۔

اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کی آلیکساندرا فان ناہمن نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ''اوول آفس میں ٹرمپ کہتے ہیں کہ ان کی ٹویٹس کا فیکٹ چیک محض ایک پرجوش سیاسی کارروائی تھا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے جاری کردہ سوشل میڈیا سے متعلق حکم نامے کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے پلیٹ فارمز کو حاصل قانونی تحفظ ختم ہو جائے گا۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق اب امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کی جانے والی اس قانون سازی کو اس کی تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ٹرمپ کا یہ حکم نامہ ابھی تک ایک مسودہ ہے اور اس کی منظوری ابھی باقی ہے۔

کیا ٹرمپ کا اقدام آئینی ہے؟

چند قانونی ماہرین نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ٹرمپ نے جس قانون سازی کا حکم دیا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ اپنے امریکی آئین کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی لازمی شرط پوری نہ کر سکے اور ناکام ہو جائے۔

اس بارے میں Yale یونیورسٹی کے آئینی امور کے ماہر پروفیسر جیک بیلکن کہتے ہیں، ''صدر ٹرمپ سوشل میڈیا اداروں کو ڈرانے، ان پر اثر انداز ہونے اور انہیں خوف زدہ کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ یہ ادارے انہیں اکیلا چھوڑ دیں اور کوئی سوشل میڈیا کمپنی دوبارہ ایسا نہ کرے جیسا ٹوئٹر نے کیا ہے۔‘‘

امریکی ایوان نمائندگان کی خاتون اسپیکر اور ٹرمپ کے بڑی سیاسی ناقد نینسی پیلوسی کے مطابق صدر نے جو ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا ہے، وہ ''بد دلی سے کی جانے والی ایک ایسی کاوش ہے، جس کا مقصد کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے نیشنل ٹیسٹنگ پالیسی کو یقینی بنانے میں ٹرمپ کی ناکامی سے توجہ ہٹانا ہے۔‘‘

ابھی تک فیس بک اور ٹوئٹر نے ٹرمپ کی تجویز کردہ قانون سازی پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

م م / ا ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں