ٹرمپ پر دستاویزی فلم: بی بی سی کے سربراہ نے استعفی کیوں دیا؟
10 نومبر 2025
برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں ایڈٹنگ کرنے کے طریقہ کار پر تنقید کے بعد ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور نیوز ایگزیکٹو ڈیبورا ٹرنس نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
اس تازہ اسکینڈل کے سبب بی بی سی کی ساکھ ایک بار پھر متاثر ہوئی ہے۔ ایسے دیگر حالیہ تنازعات میں سے ادارے کے اندر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے اسکینڈلز اور ہائی پروفائل اینکرز کے خلاف دھونس جمانے اور جنسی حملوں جیسے الزامات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔
ٹرمپ کی دستاویزی فلم میں غلط کیا تھا؟
معروف اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے معیارات اور رہنما خطوط کے حوالے سے بی بی سی کے ایک مشیر کے ڈوزیئر کے کچھ حصے شائع کیے ہیں، جس کے بعد سے بی بی سی کے اعلیٰ عہدیداروں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس مذکورہ ڈوزیئر میں ٹرمپ کی چھ جنوری 2021 کی تقریر کو جس انداز سے بی بی سی نے اپنی دستاویزی فلم کے لیے ایڈٹ کیا، اس طریقہ پر تنقید کی گئی ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ یہ گمراہ کن ہے، کیونکہ اس میں تقریر کے اس حصے کو ہٹا دیا گیا، جہاں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حامی پرامن مظاہرہ کریں۔
اس میمو میں کہا گیا ہے کہ فلیگ شپ پینوراما پروگرام نے ٹرمپ کی تقریر کے دو حصوں کو ایک ساتھ اس طرح سے ایڈٹ کیا، تاکہ وہ کیپیٹل ہل فسادات کی حوصلہ افزائی کرتے دکھائی دیں۔
دستاویزی فلم میں ٹرمپ کو اپنے حامیوں سے یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ "ہم کیپیٹل ہل تک جا رہے ہیں" اور پھر ان کی تقریر کا ایک مختلف حصہ کہ وہ وہاں "جہنم کی طرح لڑیں گے" کو اس کے ساتھ ہی جوڑ دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے لیک ہونے والے ڈوزیئر میں بی بی سی کی غیر جانبداری کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے "سنگین اور نظام کے مسائل" بیان کیے گئے کہ پینوراما کی ایڈٹنگ "مکمل طور پر گمراہ کن" تھی۔
ہم استعفوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ایک بیان میں بی بی سی کے سربراہ ڈیوی نے تسلیم کیا کہ "بی بی سی غلطیوں سے مبرا نہیں ہے اور ہمیں ہمیشہ کھلا، شفاف اور جوابدہ ہونا چاہیے۔"
انہوں نے مزید کہا، "گرچہ یہ واحد وجہ نہیں ہے، تاہمبی بی سی نیوز کے ارد گرد موجودہ بحث نے میرے فیصلے میں سمجھ بوجھ سے حصہ لیا ہے۔۔۔ مجھے حتمی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔"
ڈیوی نے اصرار کیا کہ استعفیٰ "مکمل طور پر میرا اپنا فیصلہ تھا۔"
عملے کو لکھے گئے ایک نوٹ میں انہوں نے کہا کہ وہ "فی الوقت بورڈ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ آنے والے مہینوں میں ایک جانشین کو منظم طریقے سے منتقلی کی اجازت دی جا سکے۔"
اس دوران بی بی سی نیوز کے سی ای او ٹورنیس نے کہا کہ ٹرمپ کی دستاویزی فلم پر سوالات "ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں، جہاں یہ بی بی سی کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ایک ایسا ادارہ ہے جس سے میں پیار کرتی ہوں۔"
انہوں نے اپنے عملے کو لکھے گئے ایک خط میں کہا، "جب کہ غلطیاں ہوئی ہیں، تاہم میں بالکل واضح ہونا چاہتی ہوں کہ بی بی سی نیوز پر بطور ایک ادارے کے متعصبانہ الزامات غلط ہیں۔"
خبر رساں ادارے روئٹرز نے صورت حال سے واقف ایک شخص کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ٹم ڈیوی کے اس فیصلے سے بی بی سی کا بورڈ حیران رہ گیا۔
ادھر ٹرمپ نے استعفوں پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے "کرپٹ صحافیوں" کے بے نقاب ہونے کی تعریف کرتے ہوئے کہا، "یہ انتہائی بے ایمان لوگ ہیں، جنہوں نے صدارتی انتخابات کے ترازو پر قدم رکھنے کی کوشش کی۔"
بی بی سی کے سربراہ کو استعفیٰ کیوں دینا پڑا؟
برطانیہ میںبی بی سی اپنے دیگر تجارتی حریفوں کے مقابلے میں بہت زیادہ سخت جانچ پڑتال کے تحت کام کرتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عوامی طور پر مالی اعانت سے چلنے والے قومی نشریاتی ادارے کے طور پر اس کی اپنی ایک منفرد حیثیت ہے۔ یہ ادارہ مالی اعانت کے لیے برطانیہ کے ہر گھر سے ٹی وی کے ساتھ لازمی سالانہ لائسنس کی فیس پر انحصار کرتا ہے۔
ادارہ اپنے تمام پروگراموں میں غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے شاہی چارٹر کا سختی سے پابندی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاملے اس سے انحراف برتنے پر سیاست دانوں، ناظرین اور حریفوں کی طرف سے فوری اور شدید ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔
لیک ہونے والی ان میڈیا رپورٹس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی دستاویزی فلم کے بارے میں شکایات نے برطانیہ کے میڈیا ریگولیٹر کی طرف سے تحقیقات کو بھی جنم دیا۔ ادھر وائٹ ہاؤس نے رد عمل کے طور پر بی بی سی کو "جعلی خبر" دینے کا لقب سے بھی نواز دیا۔
میڈیا پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسی طرح کی پیش رفت نے ممکنہ طور پر دونوں ایگزیکٹوز پر ناقابل برداشت دباؤ ڈالا ہے، جس سے انہوں نے اپنا استعفی سونپ دیا۔
ادارت: جاوید اختر