’صدر ٹرمپ نے 2016 اور2017 میں صرف 750 ڈالر ٹیکس ادا کیے‘
28 ستمبر 2020
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعوی کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے2016میں جس برس عہدہ صدارت کے امید وار تھے اور پھر ملک کا صدر بننے کے بعد پہلے سال میں صرف 750ڈالر وفاقی انکم ٹیکس ادا کیے۔
اشتہار
نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ سے متعلق مالیاتی انکشافات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ انہوں نے 2018 کے درمیان کم از کم 434.9 ملین ڈالر کمائے لیکن اپنے ٹیکس گوشواروں میں 47.4 ملین ڈالر کا خسارہ دکھایا۔ صدر ٹرمپ نے اس رپورٹ کو جعلی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
اخبار کے مطابق صدر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی انتہائی سختی سے حفاظت کرتے ہیں اور وہ دور جدید کے واحد صدر ہیں جنہوں نے اسے عام نہیں کیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ 15میں سے 10برس تک کوئی وفاقی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔
چالاک اور محب وطن
صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات نے ان کے اپنے متعلق بیان کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ وہ خود کو چالاک اور محب وطن قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن ٹیکس گوشواروں سے انہیں مالی نقصانات اور بیرون ملک سے ہونے والی جس طرح کی آمدن کا انکشاف ہوا ہے وہ ان کے بطور صدر ذمہ داریوں سے متصادم ہوسکتے ہیں۔
اہم عالمی رہنما کتنا کماتے ہیں
دنیا بھر کے اہم ممالک کے سربراہان حکومت اور ریاست کو ان کی خدمات کے عوض کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
۱۔ لی شین لونگ
دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنخواہ سنگاپور کے وزیر اعظم لی شین لونگ کی ہے۔ اس عہدے پر اپنی خدمات کے عوض وہ ہر ماہ ایک لاکھ سینتالیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم وصول کرتے ہیں۔
تصویر: imago/ZUMA Press/UPI
۲۔ الائن بیرسیٹ
سوئٹزرلینڈ کی کنفیڈریشن کے صدر الائن بیریسٹ کی ماہانہ تنخواہ قریب چھتیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
۳۔ انگیلا میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی تنخواہ یورپی یونین میں سب سے زیادہ اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ بطور رکن پارلیمان اور ملکی چانسلر ان کی مجموعی ماہانہ تنخواہ 27793 یورو (چونتیس ہزار ڈالر سے زائد) بنتی ہے اور انہیں اس پر ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Schrader
۴۔ ملیکم ٹرن بُل
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بُل کی سالانہ تنخواہ پانچ لاکھ اٹھائیس ہزار آسٹریلوی ڈالر ہے جو کہ ساڑھے تینتیس ہزار امریکی ڈالر ماہانہ کے برابر ہے۔ یوں وہ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Rycroft
۵۔ ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر ہے جو ماہانہ 33 ہزار تین سو تینتیس ڈالر بنتی ہے۔ صدر ٹرمپ سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے سربراہان مملکت میں اگرچہ پانچویں نمبر پر ہیں لیکن انہوں نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/Pool/R. Sachs
۶۔ چارلس مشیل
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق بلیجیم کے وزیر اعظم چارلس مشیل اٹھائیس ہزار ڈالر کی ماہانہ تنخواہ کے ساتھ عالمی سطح پر چھٹے اور یورپ میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
۷۔ سرجیو ماتریلا
اطالوی صدر سرجیو ماتریلا ساتویں نمبر پر ہیں اور اس عہدے پر خدمات کے عوض انہیں ماہانہ تئیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office
۸۔ جسٹن ٹروڈو
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو عالمی سطح پر زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے رہنماؤں کی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ قریب سوا بائیس ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Tang
۹۔ کرسٹی کالیولائیڈ
یورپی ملک ایسٹونیا کی اڑتالیس سالہ صدر کرسٹی کالیولائیڈ کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Charlier
۱۰۔ لارس لوکے راسموسن
ڈنمارک کے وزیر اعظم اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں اور انہیں ماہانہ پونے بیس ہزار امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Florin
۱۱۔ سٹیفان لووین
سویڈن کے وزیر اعظم سٹیفان لووین کی ماہانہ تنخواہ تقریبا ساڑھے انیس ہزار ڈالر بنتی ہے اور وہ اس فہرست میں گیارہویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/I.Hell
۱۲۔ جمی مورالیس
وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا کے صدر جمی مورالیس کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار تین سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/A. Sultan
۱۳۔ آذر الیے
’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق آذربائیجان کے صدر آذر الیے کی ماہانہ تنخواہ بھی انیس ہزار ڈالر ہے۔
تصویر: Imago/Belga/F. Sierakowski
۱۴۔ ایمانوئل ماکروں
یورپی یونین کی دوسری مضبوط ترین معیشت فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار ڈالر سے زائد ہے جو کہ جرمن چانسلر کی تنخواہ سے نمایاں طور پر کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Marin
۱۵۔ شینزو آبے
پندرہویں نمبر پر جاپانی وزیر اعظم شیزو آبے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سولہ ہزار سات سو ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Kambayashi
پاکستان سمیت دیگر اہم عالمی رہنما
اب تک آپ سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے پندرہ رہنما دیکھ چکے، آگے جانیے روس، ترکی، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے رہنماؤں کی تنخواہوں کے بارے میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Warnecke
ٹریزا مے
برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی ماہانہ تنخواہ ساڑھے سولہ ہزار ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Brady/PA Wire
رجب طیب ایردوآن
ترک صدر رجب طیب ایردوآن ہر ماہ تیرہ ہزار ڈالر بطور تنخواہ لیتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی تنخواہ کئی دیگر اہم رہنماؤں سے کم ہے۔ انہیں ہر ماہ ساڑھے بارہ ہزار ڈالر ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Y. Kadobnov
عبدالفتاح السیسی
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار آٹھ سو امریکی ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture -alliance/Sputnik/Vitaliy Belousov
نریندر مودی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس فہرست میں کافی نیچے ہیں اور ان کی امریکی ڈالر میں ماہانہ تنخواہ قریب پچیس سو بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
شی جن پنگ
دوسری مرتبہ چینی صدر منتخب ہونے والے شی جن پنگ ممکنہ طور پر’تا حیات‘ چینی صدر رہ سکتے ہیں۔ ’ویج انڈیکیٹر‘ کے مطابق ان کی تنخواہ محض ایک ہزار سات سو ڈالر کے برابر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ng Han Guan
شاہد خاقان عباسی
پاکستانی وزیر اعظم کو ملنے والی ماہانہ تنخواہ دنیا عالمی سطح پر انتہائی کم ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق شاہد خاقان عباسی کو ماہانہ قریب ساڑھے بارہ سو امریکی ڈالر کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
23 تصاویر1 | 23
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایک مشہور ارب پتی شخص کس طرح بہت معمولی یا بالکل صفر ٹیکس ادا کرسکتا ہے، جب کہ درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد اس سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔
عام شہری پر ٹرمپ سے 16 گنا زیادہ ٹیکس
ایک اندازے کے مطابق تقریباً نصف امریکی شہری کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی آمدنی بہت کم ہے۔ تاہم امریکی انٹرنل ریونیو سروس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017 میں ایک اوسط ٹیکس دہندہ نے 12200 ڈالر انکم ٹیکس ادا کیا جو کہ صدر ٹرمپ کے ادا کردہ ٹیکس کے مقابلے میں تقریباً 16 گنا زیادہ ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ انکشاف صدر ٹرمپ کے دو عشروں کے ٹیکس گوشواروں کو حاصل کرنے سے ممکن ہوسکا ہے۔ رپورٹ ایسے وقت میں شائع ہوئی ہے جب منگل کے روز پہلا صدارتی مباحثہ ہونے والا ہے۔
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
اس دوران صدر ٹرمپ نے اتوار کے روز وائٹ ہاوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز کی مذکورہ رپورٹ کو 'فیک نیوز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے تاہم اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ٹیکس ادائیگی کے متعلق معلومات منظر عام پر لائی جائیں گی لیکن انہوں نے اس کے متعلق کوئی حتمی تاریخ نہیں بتائی۔
وعدہ جو وفا نہ ہوا
خیال رہے کہ انہوں نے 2016 کے انتخابی مہم کے دوران بھی اسی طرح کے وعدے کیے تھے لیکن انہیں کبھی پورا نہیں کیا۔ دوسری طرف انہوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ جن میں امریکی ایوان بھی شامل ہے جو امریکی پارلیمان کے نگرانی کے نظام کے حصے کی حیثیت سے ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں تک رسائی کے لیے عدالتی چارہ جوئی کررہی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر بننے کے بعد ابتدائی دو برس کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بیرون ملک کاروبار سے سات کروڑ 30 لاکھ ڈالر کمائے۔ جو ان کے اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں گولف جائیدادوں سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے فلپائن سے 30 لاکھ ڈالر، بھارت سے 23 لاکھ ڈالر اور ترکی سے10 لاکھ ڈالر کمائے۔
صدر ٹرمپ نے امریکا میں صرف 750 ڈالر انکم ٹیکس ادا کیے، اس کے برخلاف انہوں نے 2017 میں بھارت میں ایک لاکھ 45 ہزار 400 ڈالر اور فلپائن میں ایک لاکھ 56 ہزار 824 ڈالر انکم ٹیکس کے طورپر اداکیے۔
اشتہار
یہی تو چالاکی ہے
ٹرمپ آرگنائزیشن کے وکیل نے خبر رساں ایجنسی اے پی کی طرف سے تبصرے کی درخواست کا فوری طورپر کوئی جواب نہیں دیا تاہم نیویارک ٹائمز کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ 'صدر نے ذاتی حیثیت میں وفاقی حکومت کو لاکھوں ڈالر کا ٹیکس ادا کیا ہے۔‘
ٹرمپ اپنے ٹیکس کو بچانے کے لیے مختلف طریقے اپناتے رہے ہیں۔ 2016 میں اپنے پہلے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کے ساتھ مباحثے کے دوران، جب ہلیری کلنٹن نے الزام لگایا کہ ٹرمپ اپنے انکم ٹیکس گوشواروں کو غالباً اس لیے عام نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے وفاقی ٹیکس کے طورپر کوئی رقم ادا ہی نہیں کی ہے تو اس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا تھا ”یہی تو میری چالاکی ہے۔"
ج ا / ص ز (اے پی)
امریکی صدارتی انتخابات: ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کیا ظاہر کرتی ہے؟