ٹرمپ ’پہلے امریکا‘ کے حامی: روس، بھارت ’کثیرالقطبی‘ دنیا کے
امان اظہر، واشنگٹن م م
25 مئی 2018
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی اور اقتصادی طور پر ’پہلے امریکا‘ کے نعرے سے عبارت دور اقتدار کے برعکس روس اور بھارت کا موقف یہ ہے کہ بین الاقوامی جغرافیائی اور سیاسی صورت حال کا تقاضا ہے کہ دنیا ’کثیرالقطبی‘ ہونی چاہیے۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ باہمی ملاقات کے بعد ان دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ماسکو اور نئی دہلی مسلسل بڑھتے ہوئے سیاسی جغرافیائی دباؤ کے پیش نظر اپنے اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو بدستور فروغ دیتے رہیں گے۔
اسی ہفتے جنوبی روس کے شہر سوچی میں ہونے والی نریندر مودی اور ولادیمیر پوٹن کی ملاقات بھارتی وزیر اعظم کے لیے نپے تلے انداز میں دوطرفہ سفارت کاری کی حکمت عملی کو مزید ایک قدم آگے لے جانے کا ایک موقع بھی تھی۔ روس اور بھارت کے باہمی تعلقات طویل المدتی قربت کا نتیجہ ہیں اور یہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لے کر ماحولیاتی تبدیلیوں تک کئی اہم عالمگیر موضوعات پر مشترکہ موقف اور مفادات کے حامل ہیں۔
نئی دہلی کو بخوبی علم ہے کہ بھارت اب اپنے لیے ماسکو کی تائید و حمایت کو ہر حال میں ہی اتنی یقینی نہیں سمجھ سکتا جتنی سابق سوویت یونین کے دور میں دیکھنے میں آتی تھی۔ 1950ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے مابین دفاع باہمی تعاون کا اہم ترین شعبہ رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے یہ رشتہ دفاعی ساز و سامان ’بیچنے اور خریدنے والے‘ کے باہمی تعلق کے بجائے بتدریج ایک ایسی شکل اختیار کر گیا ہے، جس میں جدید تر دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری کے مشترکہ تحقیقی منصوبوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی فتح کی یاد میں جشن
دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کی یاد منانے کے موقع پر روسی فوج نے اپنی طاقت اور نئی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر پوٹن نے متنبہ کیا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ریڈ اسکوائر میں جشن
روس ہر سال نو مئی کو سوویت یونین کے ہاتھوں نازی جرمنی کی شکست کا جشن مناتا ہے۔ 1945ء کی اسی تاریخ کی نصف شب کو نازی جرمنی نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ دیگر اتحادی ممالک مثلاﹰ فرانس اور برطانیہ فتح کا دن آٹھ فروری کو مناتے ہیں۔ ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ہونے والی اس پریڈ کی سربراہی روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے کی۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
ریڈ آرمی کے قیام کے 100 برس
2018ء کی یوم فتح کی پریڈ سابق سوویت یونین کی ’ریڈ آرمی‘ کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کی یادگار میں بھی تھی۔ اس موقع پر 13 ہزار کے قریب فوجیوں نے انتہائی منظم انداز میں پریڈ کی۔ اس موقع پر سابق فوجیوں کی کافی تعداد بھی موجود تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی یہ پریڈ دیکھی جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو میں تھے۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
ایک ’قابل تعظیم‘ چھٹی کا دن
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پریڈ کے شرکاء سے بات چیت کی، مثلاﹰ تصویر میں نظر آنے والے یوتھ ملٹری گروپ کے ارکان۔ روسی صدر کے مطابق، ’’یہ ایک چھٹی کا دن ہے جو ہمیشہ سے تھا، ہے اور رہے گا اور یہ ہر خاندان کے لیے قابل تعظیم رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر دنیا کو ان غطیوں سے خبردار کیا جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ بنیں: ’’انا پرستی، عدم برداشت، جارحانہ قوم پرستی اور منفرد ہونے کے دعوے۔‘‘
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
’روسی کارہائے نمایاں مٹائے نہیں جا سکتے‘
روسی اکثر یہ کہتا ہے کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو شکست دینے میں روس کے کردار کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق، ’’یورپ کو غلامی اور مکمل خاتمے کے خطرے اور ہولوکاسٹ کی دہشت سے بچانے میں ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا آج لوگ ان کارناموں کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ روسی صدر نے خود کو روایتی یورپ کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
ہوشیار باش اسنائپرز
ریڈ اسکوائر پر صرف فوجی قوت کا ہی مظاہرہ نہیں ہوا بلکہ اس تمام کارروائی کے دوران ارد گرد کی عمارات پر ماہر نشانہ باز بھی بالکل ہوشیار باش تھے۔ ریڈ اسکوائر ماسکو کے وسط میں واقع ہے اور یہ روسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کا علاقہ ہے۔
تصویر: Reuters/S. Karpukhin
نئے ہتھیاروں کی نمائش
اس پریڈ کے دوران 159 کی تعداد میں فوجی ساز و سامان کی بھی نمائش کی گئی۔ ان میں میزائل سے مسلح ایک MiG-31 سپر سانک جیٹ بھی شامل تھا۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق زیادہ تر جدید ہتھیاروں کو شامی جنگ میں جانچا جا چکا ہے۔ نمائش کے لیے پیش کیے گئے اسلحے میں ڈرون، باردوی سرنگیں صاف کرنے والا روبوٹ اور انسان کے بغیر کام کرنے والا ٹینک بھی شامل تھا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
6 تصاویر1 | 6
آج کے دور میں بھارت اور روس اپنے باہمی روابط میں اسی گرمجوشی کو قائم رکھتے ہوئے مل کر بین الاقوامی نوعیت کے ان متنازعہ سیاسی جغرافیائی امور پر بھی ایک دوسرے کے قریب ترین موقف اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو ابھی تک حل طلب ہیں۔ نئی دہلی روسی ہتھیاروں پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے اور روس پاکستان کے ساتھ اپنے ماضی سے مختلف اور زیادہ قریبی روابط کے لیے کوشاں ہے، حالانکہ پاکستان بھارت کا ہمسایہ بھی ہے اور سب سے بڑا حریف ملک بھی۔
اس کا ثبوت ماسکو کی پاکستان کو روسی ملٹری ٹرانسپورٹ فروخت کرنے کی وہ خواہش بھی ہے، جو مستقبل میں اس کے اسلام آباد کے ساتھ قریبی عسکری تعاون کا رستہ بھی کھول سکتی ہے۔ اس کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سوچی میں صدر پوٹن سے اپنی ملاقات کے بعد بھارتی روسی تعلقات کو ایک ’خصوصی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ‘ قرار دیا۔
بھارتی جریدے ’اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق مودی اور پوٹن نے اپنی ملاقات میں اس بارے میں یہ اتفاق رائے ظاہر کیا، ’’خطے میں اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام کے تحت استحکام کی خاطر بھارت اگرچہ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہا ہے، تاہم بحیرہ ہند اور بحرالکاہل کے علاقے میں ایک ایسے سکیورٹی ڈھانچے کی ضرورت اپنی جگہ ہے، جو غیر جانبدار بنیادوں پر کام کر سکے۔‘‘
باون سال بعد چلی بھارت بنگلہ دیش دوستی ٹرین
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد نے اپنے بھارتی دورے کے دوران کلکتہ کھلنا دوستی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھائی۔ اس دوستی ٹرین کا نام ’میتری 2‘ رکھا گیا ہے۔
تصویر: DW/P. Mani
میتری 2
فی الحال تجرباتی طور پر چلائی گئی ’میتری 2‘ نامی اس ٹرین کی دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کا باقاعدہ آغاز رواں برس جولائی سے ہو گا۔ ٹرین کی روانگی کے وقت موجود لوگوں نے اس کی ویڈیوز اور تصاویر بنائیں۔
تصویر: DW/P. Mani
ٹرین دیکھنے کا شوق
اس ٹرین کو بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان نقل و حمل کے نظام کی مشکلات کم کرنے میں ایک اہم ذریعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خواتین بچوں اور دور دراز کے دیہات سے آنے والے افراد بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ پہلے بھارتی اسٹیشن پر اس ٹرین کو دیکھنے کے لیے کئی گھنٹے پہلے ہی جمع ہو گئے تھے۔
تصویر: DW/P. Mani
پھولوں سے استقبال
بنگلہ دیش کے شہر کھلنا سے بھارت آنے والی یہ ٹرین اپنے ساتھ پرانی یادیں بھی لے کر آئی۔ بھارتی اسٹیشن پترا پول پر مقامی رہائشیوں نے ٹرین کا پھولوں سے استقبال کیا۔
تصویر: DW/P. Mani
بھارت بنگلہ دیش دوستی
ٹرین کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کی بنگلہ دیشی ہم منصب حسینہ واجد کی تصاویر سے سجایا گیا تھا۔ ٹرین کے انجن پر لگے ایک بڑے بینر پر بھارت اور بنگلہ دیش کی دوستی کا ذکر کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/P. Mani
باون سال بعد
سرحد کے اس پار سے باون سال بعد پہلی ٹرین اس لائن پر چلی۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل اس راستے پر ٹرین چلا کرتی تھی تاہم سن 1965 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے دوران اسے بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/P. Mani
اندرونی آرائش
اس ٹریک پر آنے والی آخری ٹرین کا انجن کوئلے سے چلتا تھا جبکہ نئی دوستی ٹرین کا انجن ڈیزل سے رفتار پکڑتا ہے۔ تاہم اس کی اندرونی آرائش بھارت کی دوسری دوستی ٹرین جیسی ہی رکھی گئی ہے۔
تصویر: DW/P. Mani
بھارت آمد
میتری 2 نامی اس ٹرین کے بنگلہ دیش سے بھارت پہنچنے پر اِس ٹرین پر آئے بنگلہ دیشی وفد کا بھارتی ریلوے کے اہلکاروں نے پھولوں کے گلدستوں سے استقبال کیا۔
تصویر: DW/P. Mani
7 تصاویر1 | 7
اس دورے اور صدر پوٹن کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے بعد نریندر مودی کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’روسی صدر اور بھارتی وزیر اعظم نے کئی بین الاقوامی امور پر بات چیت کی، جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک کثیر القطبی دنیا کا قیام کتنا ضروری ہے۔‘‘
دوسری طرف امریکا کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں اگر دیگر ممالک کے لیے ماسکو کے ساتھ تجارتی روابط میں مشکلات کا سبب بن رہی ہیں تو ساتھ ہی ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر روس کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی تشویش ہے۔
ایسے میں اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ اپنی ’پہلے امریکا‘ کی سیاسی پالیسی کے ساتھ کئی حوالوں سے بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی روابط پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں، تاہم نئی دہلی اور ماسکو کی اس کوشش میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اقوام عالم کے آپس میں بہتر اور مستحکم تعلقات کے لیے دنیا کو سیاسی جغرافیائی حوالے سے کثیرالقطبی ہونا چاہیے۔