1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ چار سال سے معاشرے ميں الفاظ کا زہر پھیلا رہے ہيں: تبصرہ

9 جون 2020

امريکا سے دوری اختیار کرنے والے جرمن شہریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے تو کچھ بیزار ہو کر۔ اس موقع پر حالات کا  بغور جائزہ لینا اہم ہے۔ ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار اينس پوہل کے اس تناظر میں چھ خیالات۔

USA Proteste gegen Donald Trump in Los Angeles
تصویر: Reuters/D. McNew

چار سال پہلے، جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کے ليے ریپبلکنز کے انٹرا پارٹی مقابلوں یا ''پرائمریز‘‘ میں انفرادیت پر مبنی اپنا رویہ دکھایا تو امریکا اور امریکا سے باہر بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر وہ کبھی صدارتی عہدے پر فائز ہوئے تو ان کا رویہ تبديل ہو جائے گا۔ اس کے بعد بھی، انتخابی مہم کے دوران، بہت سے لوگوں نے ٹرمپ کی طرف سے ان کے حریفوں کی توہین، انہیں نفرت انگیزی کا نشانہ بنانے، صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیوں اور معذور افراد تک کے ساتھ بدسلوکی کو معاف کر دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سب انتخابی مہم کا شور شرابا تھا۔ ٹرمپ کا رویہ ایسا نہیں رہے گا:''دفتر یا عہدہ انسان کی شخصیت سازی کرتا ہے‘‘۔

 دنیا کو حالیہ برسوں میں بہت کچھ سیکھنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ پاپولسٹ یا عوامیت پسند، پاپولسٹ ہی رہتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی دفتر اور کسی عہدے پر کیوں نہ ہوں۔

اینس پوہلتصویر: DW/A. Tasci

(2) اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین اور ناقدین کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں۔ ہم فی الحال اس زہر کے طویل مدتی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں جو ٹرمپ چار سالوں سے زبانی طور پر اپنے ملک پر پھیلارہے ہیں اور جس نے معاشرے کو اندر سے نقصان پہنچایا ہے۔ صدر کی جملے بازیوں، نفرت، غصے اور حقارت نے بہت سارے امریکیوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ الفاظ ہتھیار ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال ميں احتیاط ضروری ہے۔

قاتلانہ عمل کی ابتدا ہمیشہ زہن سے ہوتی ہے

(3) نسل پرستی قاتل ہوتی ہے۔ یہ قاتلانہ عمل ہمیشہ ذہنی فطور سے جنم لیتا ہے۔ ہم  روزمرہ زندگی ميں نسل پرستی کے خلاف جنگ میں غفلت برتنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ آج بھی جرمنی میں اہم اداروں میں رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک، اجانب مخالف لطیفے بازی، اقلیتوں کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیے جانے کا رواج پایا جاتا ہے۔

بے شک، ہر ملک کی اپنی ایک مخصوص تاریخ اور چیلنجز ہیں۔ لیکن کوئی بھی معاشرہ نسل پرستی سے پاک نہیں ہے۔ ہم سب کو اپنے افکار اور اعمال پر بار بار سوال اٹھانا چاہیے۔

 (4) میں چار سال پہلے بھی امریکا ميں موجود تھی اور ميں نے دیکھا کہ ٹرمپ نے موجودہ اداروں کے خلاف اپنی مہم کس طرح چلائی۔ انہوں نے اپنی نسل پرستی، خواتین کی توہین، ایک فعال جمہوریت کی مخالفت ، ان سب کو "وہاں موجود اشرفیہ کے خلاف جنگ" کی کوششوں کے طور پر کس طرح پیش کیا۔ یہ سب سیاستدانوں کے لیے ایک انتباہ ہونا چاہیے کہ اس نوعيت کی عوامیت پسندی بالآخر جمہوریت کی بنیادوں پر حملہ ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

5) امریکا بھی خود کو تباہ کرنے والے راستے پر ہے کیونکہ وہاں شہریوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے بھی مواقع میسر نہیں ہیں۔ اب سوشل میڈیا کے بارے میں کوئی مشترکہ "ورلڈ ویو" یا عالمی نظریہ نہیں پایا جاتا۔ یہاں تک کہ روایتی میڈیا بھی مخصوص سیاسی اسپیکٹرم  سے باہر نکل کر عام لوگوں تک پہنچنے میں ناکام ہے۔

میں اب بے حس ہو چکی ہوں

(6) میں آپ کے بارے میں نہیں جانتی کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہيں۔ لیکن جب کبھی امریکا کے موجودہ صدر کی بات آتی ہے تو میں خود کو بے حس محسوس کرتی ہوں۔ کچھ سال پہلے تک جو کچھ محض ناقابل تصور ہوتا تھا، اب اسے ایک نئی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے سربراہان مملکت کو دھمکیاں، ان کی توہين۔ سابق خاتون اول ميشل اوباما کا اس رویے پر افسانوی ردعمل:''جب وہ پستی ميں گريں تو ہم اونچائی پر چلے جاتے ہیں۔‘‘

اس ميں بھی امریکا کے ليے ایک تنبیہ ہے۔'' با اخلاق رویہ پیشہ ورانہ آداب سے زیادہ اہم  ہے۔‘‘ اور یہ یہی صحیح معنوں میں جمہوری رائے قائم کرنے کی بنیاد بھی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ آپ بہتر دلیل پر شدید بحث نہیں کریں۔ لیکن فوری ٹویٹ کرتے ہوئے بھی آپ کو ایک مہذب لہجہ برقرار رکھنا چاہیے۔ ان دنوں اور ہفتوں میں ہم نے یہ ديکھ لیا کہ اگر کوئی ملک اپنے اداروں اور پھر خود ہی اپنے ليے احترام سے محروم ہوجاتا ہے تو اس کا نتيجہ کیا نکلتا ہے۔

اینس پوہل/ ک م/  ع ا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں