ٹرمپ کا ایگزیکٹیو آرڈر، عدالتی پابندی کا سلسلہ برقرار
10 فروری 2017کل جمعرات، نو فروری کو سان فرانسسکو کی وفاقی اپیل کورٹ نے امریکی صدر ٹرمپ کی سات مسلمان ملکوں کے شہریوں اور مہاجرین کے امریکا داخلے پر پابندی کے ایگزیکٹیو آرڈر کو جائز اور قانونی قرار دینے کی حکومتی اپیل مسترد کر دی۔ تین ججوں پر مشتمل اپیل کورٹ نے یہ فیصلہ متفقہ طور پر سنایا۔ یہ اپیل امریکی محکمہٴ انصاف کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
وفاقی اپیل کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے حق میں دیے گئے دلائل سے اتفاق نہیں کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ ضرور واضح کیا کہ اس معاملے میں کئی پیچیدگیاں حائل ہیں اور ایک بڑا دستوری عدالتی بینچ ہی اُن کا حل تجویز کر سکتا ہے۔ عدالت نے امریکی محکمہٴ انصاف کے وکیل کے اُن تمام انتظامی دلائل کو مسترد کر دیا، جن میں کہا گیا تھا کہ عدالت صدر کے سلامتی سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر کی سماعت نہیں کر سکتی۔
ججوں کے مطابق صدارتی فرمان کو جن قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، اُس کے تناظر میں اُسے بحال نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی اپیل کورٹ نے سان فرانسسکو شہر میں امریکی محکمہٴ انصاف کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کئی اہم نکات اٹھائے تھے۔ ججوں کے مطابق پابندی کے حق میں جو دلائل دیے گئے ہیں، اُن سے کئی قسم کے اہم دستوری نکات سامنے آئے ہیں اور وہ یقینی طور پر جواب طلب ہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا دوبارہ عدالت میں سامنا کیا جائے گا۔ اس ٹویٹ میں ٹرمپ نے یہ بھی تحریر کیا کہ امریکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ اس کے جواب میں امریکی ریاست واشنگٹن کے گورنر جان اِنزلی نے کہا کہ جناب صدر آپ کو عدالت میں دیکھ لیا ہے اور آپ کو دوبارہ بھی شکست ہو گی۔ جان انزلی کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر تحریر کیا کہ حکومتی وکیل ریاست کے وکلاء کے دلائل کا مؤثر جواب دینے سے قاصر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کی بحالی کی عدالتی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگلا مرحلہ سپریم کورٹ کا ہے اور ٹرمپ کے ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن حکومت سپریم کورٹ میں اپیل یقینی طور پر دائر کرے گی۔ سپریم کورٹ کے لیے ٹرمپ کے نامزد جج نیل گورسَچ نے بھی ججوں کے بارے میں صدر کے کلمات کو نامناسب خیال کیا ہے۔