وائٹ ہاؤس نے تھینکس گیوِنگ پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ افغانستان غیر عمومی طور پر خفیہ رکھا۔ اس کی وجہ لیکس کا خوف اور حالیہ کچھ عرصے میں سکیورٹی کی خامیوں جیسے متعدد امور تھے۔ مگر یہ دورہ کس طرح چھپایا گیا؟
تصویر: Getty Imags/AFP/O. Douliery
اشتہار
ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جب ٹرمپ افغانستان کے لیے محوِ پرواز تھے، تو اس دوران بھی پہلے سے تیار کردہ ٹوئٹس کیے جاتے رہے تاکہ کسی کو اس دورے کا علم نہ ہو سکے۔ اس عہدیدار کے مطابق افغانستان کے دورے کو چھپانے کے لیے اس پر کئی طرح کی تہیں بچھا دی گئی تھیں۔
جمعرات کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ایک غیراعلانیہ دورے پر افغانستان میں بگرام فوجی اڈے پر پہنچے تھے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دوسرا دورہء افغانستان تھا۔ اس دورے میں انہوں نے امریکی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں کھانا پیش کر کے 'تھینکس گیوِنگ‘ کی امریکی روایت کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔
اس 33 گھنٹوں پر محیط دورے کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ واشنگٹن انتظامیہ نے کئی ہفتوں سے زیر غور اس دورے کی کسی کو کان و کان خبر تک نہ ہونے دی۔ اس دورے سے دنیا اس وقت آگاہ ہوئی، جب صدر ٹرمپ افغانستان میں امریکی فوجیوں سے ملاقات کے بعد واپسی کے سفر پر روانہ ہونے والے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی تین ملاقاتیں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر گزشتہ تقریباً ایک سال میں تین مرتبہ آپس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ان میں سے پہلی ملاقات سنگاپور، دوسری ہنوئے اور تیسری جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شمالی کوریائی سرزمین پر پہنچنے والے پہلے امریکی صدر
تیس جون 2019ء کو ہونے والی یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوں ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام پر پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
پانمنجوم میں شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی حدود میں خیر مقدم کیا اور پھر انہیں لے کر اپنے ملک میں داخل ہو گئے۔ اس تصویر میں ٹرمپ کو شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شاندار بہترین تعلقات
جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پانمنجوم کے مقام پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کو شاندار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انہی تعلقات کی بدولت مختلف امور سے متعلق پائی جانے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images/B. Smialowski
حیران کن ملاقات کی دعوت
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُؑن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم بھی ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
دوسری ملاقات: ویتنامی دارالحکومت ہنوئے میں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کی دوسری ملاقات کی میزبانی ویتنام کو حاصل ہوئی۔ دونوں لیڈروں کے قیام اور ملاقات کے مقام کے لیے انتہائی سخت اور غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کم جونگ اُن حسب معمول بذریعہ ٹرین ویتنام پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Vucci
ہنوئے سمٹ بے نتیجہ رہی
ٹرمپ اور اُن کی ہنوئے میں ملاقات ناکام ہو گئی تھی۔ اس ملاقات میں شمالی کوریائی لیڈر نے اپنے ملک کے خلاف عائد مختلف پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پابندیاں فوری طور پر امریکی صدر ختم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان میں سے بیشتر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے لگائی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/L. Millis
سنگاپور سمٹ
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان سنگاپور میں ہونے والی پہلی ملاقات تو ایک بار اپنی منسوخی کے بھی بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر دونوں لیڈروں کے رابطوں سے یہ ممکن ہوئی۔ یہ ملاقات بارہ جون سن 2018 کو ہوئی تھی۔ کسی بھی امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace
سنگاپور سمٹ: مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
امریکی صدر اور شمالی کوریا کے لیڈر کے درمیان سنگاپور ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات اور معاملات کو بہتر بنانے کی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ یادداشت کی اس دستاویز کا تبادلہ پیچھے کھڑے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور شمالی کوریائی خاتون اہلکار کے درمیان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Ministry of Communications
8 تصاویر1 | 8
منگل کے روز صدر ٹرمپ فلوریڈا میں اپنے ریزورٹ مار ا لاگو گئے، ان کے ہم راہ صحافیوں کا ایک پورا قافلہ تھا۔ صحافیوں کا یہ ہجوم امریکی صدر کے ہم راہ رہتا ہے اور اس کا کام صدر کے دوروں سے متعلق تفصیلات عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ جمعرات کے روز یہ صحافی دوپہر کو صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں سے کانفرنس کال کے منتظر تھے، جب انہیں بتایا گیا کہ ٹرمپ تیرہ ہزار چار سو کلومیٹر دور افغانستان میں ان فوجیوں سے بالمشافہ ملاقات کے لیے پہنچ چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، ''افغانستان ایک خطرناک جگہ ہے، جب کہ صدر ٹرمپ امریکی فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے ان سے ملنا چاہتے تھے۔ اس لیے اس دورے کو خفیہ رکھا گیا۔‘‘
امریکی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ کے افغانستان روانگی کے وقت بھی چند چیدہ صحافیوں کو جوائنٹ بیس اینڈریو کی پارکنگ لاٹ تک لایا گیا تھا اور انہیں بتایا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ ایک 'نامعلوم مقام‘ کی جانب جا رہے ہیں۔