امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بدھ آٹھ نومبر کو چین کے دورے پر پہنچے۔ اُن کا شاندار استقبال کیا گیا۔ امریکی صدر کے وفد میں کئی بڑی امریکی کاروباری کمپنیوں کے سربراہان بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ چین کے بعد ویت نام اور فلپائن جائیں گے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں مشرقِ بعید کے پانچ ملکوں کے دورے کے دوران چین پہنچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے شمالی کوریائی تنازعے کے ساتھ ساتھ امریکا اور چین کے تجارتی معاملات میں پیدا اختلافی صورت حال کو چینی صدر کے ساتھ گفتگو میں شامل کیا۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی اور بہتری کا تاریخی موڑ آیا ہے۔ تجارتی معاملے پر شی جن پنگ نے کہا کہ اُن کا ملک امریکی سمیت دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے لیے شفاف اور کھلی پالیسی رکھتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے امریکی کمپنیوں کے سربراہان کو خوش آمدید بھی کہا۔ چینی صدر کے ساتھ بات چیت کے دوران ٹرمپ نے دو طرفہ تجارت میں عدم توازن کی جانب اشارہ کیا تھا۔
چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ گفتگو کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ اور چینی صدر یقین رکھتے ہیں شمالی کوریا کے مسئلے کا حل یقینی طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے چینی صدر سے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے ساتھ اپنے مالی تعلقات کو منقطع کرنے کے علاوہ اس تنازعے کے پرامن حل کے حصول میں عملی پیش رفت کریں۔ اس موقع پر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی شمالی کوریائی تنازعے کے حل میں کردار ادا کرنے کو اہم قرار دیا۔
ٹرمپ کے دورے کے دوران چینی اور امریکی کی کمپنیوں کے درمیان 250 بلین ڈالر کے مختلف سمجھوتے طے پائے ہیں۔ ان سمجھوتوں کے طے کرنے کا اعلان بھی امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کیا۔ یہ اربوں ڈالر کے سمجھوتے چین اور امریکا کی کئی بڑی کمپنیوں کے سربراہان کے درمیان طے پائے۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ ان سمجھوتوں سے امریکی کمپنیوں کے اُس خدشے کا ازالہ ہو سکے گا کہ چین کے اندر کاروبار کے لیے انہیں رسائی حاصل نہیں ہے۔
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
6 تصاویر1 | 6
آٹھ نومبر کو امریکی صدر کے لیے بیجنگ کے گریٹ ہال کے باہر خصوصی استقبال کا انتظام کیا گیا تھا۔ استقبالیہ تقریب کو چین کے سرکاری ٹیلی وژن پر براہِ راست نشر کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب کو غیرمعمولی انداز میں خوش آمدید کہا ہے۔ اس سے قبل سابق صدر باراک اوباما کے چینی دورے کے دوران انہیں ریڈ کارپٹ استقبال نہیں دیا گیا تھا۔