1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

ٹرمپ کا سوڈان کو دہشت گردی کی فہرست سے ہٹانے کا عندیہ

20 اکتوبر 2020

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ جب سوڈان امریکی متاثرین اور ان کے لواحقین کو متفقہ معاوضے کے پیکیج کی ادائیگی کر دیگا تو وہ اسے دہشت گردی کی اعانت کرنے والی بلیک لسٹ سے ہٹانے کے لیے تیار ہیں۔

Der Sudan und  Rebellengruppen unterzeichnen in Juba ein Friedensabkommen
تصویر: Jok Solomun/Reuters

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر 19 اکتوبر کو کہا کہ سوڈان کو ان ممالک کی بلیک لسٹ سے ہٹا دیا جائے گا جن پر دہشتگردی کی اعانت کرنے کا الزام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوڈان کی ایک برس پرانی عبوری حکومت نے امریکی متاثرین اور ان کے لواحقین کو تین کروڑ35 لاکھ ڈالر کے ایک معاضے کے پیکج کی ادائیگی پر اتفاق کر لیا ہے۔

انہوں نے ٹویٹر پر اس کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ طویل عرصے کے بعد بالآخر امریکی شہریوں کو انصاف ملا اور سوڈان کے لیے بھی یہ ایک بڑا قدم ہے۔ انہوں نے کہا، ''ایک بار جب رقم جمع کر دی جائیگی، میں سوڈان کو ریاستی سطح پر دہشتگردی کی اعانت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکال دونگا۔''

سوڈان کے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک نے بھی ٹرمپ کے اس اعلان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا اور لکھا، ''ہم سوڈان کو ریاستی دہشتگردی کی کفالت کرنے والے ممالک کی فہرست سے ہٹانے کے لیے، کانگریس کو، آپ کی جانب سے سرکاری نوٹیفکیشن کے بھیجنے کے  منتظر ہیں، جس کی وجہ سے سوڈان کو بہت زیادہ قیمت چکانی پڑی ہے۔''

سن 1993 میں امریکا نے سوڈان میں عمر البشیر کی حکومت پر دہشت گرد تنظیموں کی اعانت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سوڈان کو بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ گزشتہ برس زبردست عوامی مظاہروں کے بعد عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹ گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ القائدہ کے بانی اسامہ بن لادن سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ امریکا کا کہنا تھا کہ عمر بشیر کی حکومت نے القائدہ سے وابستہ شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کی تھیں۔

سوڈان نے کروڑوں ڈالر کے جس معاوضے کے پیکج پر اتفاق کیا ہے اس کے تحت سن 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں اور یمن میں سن 2000 میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر حملوں جیسے متعدد دہشتگردانہ حملوں کے متاثرین  اور ان کے لواحقین کو رقم مہیا کی جائے گی۔   

  برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس رقم کی ادائیگی کے ساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بھی سوڈان کا راستہ ہموار ہوجائیگا اور بہت جلد ہی سوڈان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی روابط قائم ہونے کا امکان ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ حالیہ مہینوں میں اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے درمیان اسی نوعیت کے معاہدے پہلے ہی کروا چکی ہے۔

اس حوالے سے جب اسرائیل کے وزیر خزانہ اسرائیل کاٹز سے سوال  پوچھا گیا کہ کیا سوڈان کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے کی گنجائش ہے؟  تو انہوں نے 'اسرائیلی آرمی ریڈیو' کو بتایا کہ ''امریکی حکام کی شمولیت کے ساتھ روابط تو ہیں، تاہم کچھ پیچیدگیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ گہرے روابط کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوں گے۔''

اس ماہ کے اوائل میں سوڈان کی موجودہ عبوری حکومت نے بھی ملک کے باغی گروہوں کے ساتھ اس امید پر ایک امن معاہدہ کیا ہے کہ اس سے عشروں سے جاری وہ خانہ جنگی بند ہو جائیگی جس میں اب تک دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

    ص/ ز ج/ ا (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں