اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریائی رہنما کا مذاق اڑاتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس کیمونسٹ ملک کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کیا جا سکتا ہے۔ نیو یارک سے میشائل کنیگے کی رپورٹ۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وہی انداز اختیار کیا، جو ان کا خاصا ہے۔ اس اجلاس میں شریک رہمناؤں کو پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ ٹرمپ یہ خیال نہیں کریں گے کہ وہ کہاں اور کس سے مخاطب ہیں اور ٹرمپ نے انہیں مایوس نہیں کیا اور ان کے توقعات پر پورا اترے۔
امریکی صدر نے اس موقع پر شمالی کوریائی رہنما کم یونگ ان کو ’راکٹ مین‘ قرار دیا، جیسا کہ وہ پہلے اپنے ٹوئٹر میں بھی لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کم یونگ ان ’خودکشی کے مشن‘ پر ہیں۔ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام پر عمل پیرا رہا تھا تو اس کمیونسٹ ملک کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا جائے گا۔
اس تقریر میں ٹرمپ نے وہ انداز اختیار کیا، جو ابھی تک کسی امریکی صدر نے نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک عالمی رہنماؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا کہ دنیا کے کچھ علاقے ’دوزخ بنتے‘ جا رہے ہیں۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ صدارتی تقاریر کی تجزیہ نگار میری اسٹوکی نے اس بارے میں کہا، ’’میں نے ابھی تک نہیں سنا کہ کسی ملکی صدر نے کسی دوسرے رہنما کو ’راکٹ مین‘ کہہ کر پکارا ہو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی یہ بیان بازی پریشان کن ہے۔
صدارتی تقاریر اور بیان بازی کے تجزیے کی ’اے اینڈ ایم یونیورسٹی ٹیکساس‘ سے تعلیم حاصل کرنے والی جینیفر میرسیکا نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تقریر پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی صدر کی طرف سے ٹوئٹر پر بھی کسی عالمی رہنما کا مذاق اڑنا نامناسب ہے لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس طرح کا انداز اختیار کرنا زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ اسی طرح کئی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کی مکمل تباہی کی دھمکی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
عدم استحکام پھیلانے والے بیانات
جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے امور کے ماہر نکولس ملر کہتے ہیں کہ جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ان کے بھی نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا اور ایران کے بارے میں بیان بازی عدم استحکام پھیلانے کا باعث ہے اور اس سے تنازعات کے انسداد اور جوہری ہتھیاروں میں کمی کی عالمی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
ملر کے بقول، ’’ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کو مکمل تباہ کر دینے کی دھمکی سے صرف یہی ہو گا کہ پیونگ یانگ جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کرنے پر غور کرے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بیان بازی سے شمالی کوریا تصور کر سکتا ہے کہ جنگ یقینی ہو چکی ہے۔
ملر کے بقول ایران کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کا بیان زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے تہران حکومت کو یہ پیغام جا سکتا ہے کہ واشنگٹن حکومت جوہری ڈیل کو ختم یا تبدیل کرنے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین طے پانے والی جوہری ڈٰیل کے خاتمے یا اس میں ترمیم کا عندیہ تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیل سے امریکا کی دستبرداری سے ایران بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کر سکتا ہے۔
ملر کے خیال میں اس طرح مشرق وسطیٰ میں بھی ہتھیاروں کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی اور یہ امکان بھی پیدا ہو جائے گا کہ سعودی عرب جیسے ممالک بھی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش شروع کر دیں۔ ملر کے مطابق یوں شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام پر سفارتکاری زیادہ مشکل ہو جائے گی۔
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: AP
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
تصویر: Claude de Chabalier/AFP/Getty Images
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔