ڈونلڈ ٹرمپ کے سوانح نگار صحافی کا کہنا ہے کہ موجودہ امریکی صدر کا مستقبل تابناک ہے۔ صحافی کے خیال میں ٹرمپ کا ہوٹلوں اور وائٹ ہاؤس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اشتہار
حال ہی میں صدارتی الیکشن ہارنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سوانح نگار مائیکل ڈی انٹونیو ہیں۔ وہ معتبر امریکی صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں صحافت کا مشہور ایوارڈ پولِٹزر پرائز کا حقدار ٹھہرایا جا چکا ہے۔ انہوں نے دو مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں گزرنے والی زندگی کے شب و روز کے حوالے سے دو کتابیں تحریر کر رکھی ہیں۔ ڈی انتونیو نے سوانح عمری تحریر کرنے کے لیے ٹرمپ کے ساتھ خاصا وقت بھی صرف کیا ہے۔ ان کی ٹرمپ کے بارے میں تازہ کتاب کانگریس میں پیش کردہ مواخذے کی تحریک کے حوالے سے ہے۔
مائیکل ڈی انتونیو نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ٹرمپ کے اگلے برس جنوری میں منصب صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد کی زندگی اور ممکنہ معمولات کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک روشن اور بہتر مستقبل رکھتے ہیں اور ان کا ہوٹل انڈسٹری یا وائٹ ہاؤس کے ساتھ کوئی زیادہ لینا دینا نہیں ہے۔ ڈی انتونیو کا کہنا ہے کہ سن 2000 سے ان کی آمدن کا تعلق ٹیلی وژن سے رہا ہے حالانکہ انہوں نے گالف کورسز اور ہوٹلز اور کاروباری عمارتیں (Towers) بھی تعمیر کرائی ہیں۔ سوانح نگار کے خیال میں وہ واپس ٹیلی وژن کی دنیا میں لوٹ جائیں گے۔
اشتہار
ٹرمپ کے ناظرین
امریکی صحافی مائیکل ڈی انتونیو کا خیال ہے کہ تین نومبر کے صدارتی انتخابات میں انہیں ستر ملین سے زائد ووٹ ڈالے گئے ہیں اور اس تناظر میں دیکھا جائے تو کم از کم تیس ملین افراد گھروں میں رہنے والے ووٹرز ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ لاکھوں ووٹرز ہر مہینے ایک ڈالر کے عوض ان کے ٹی وی پروگرامز کو سبسکرائب کریں تو ان کی آمدن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈی انٹونیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس ٹیلی وژن پروگرامنگ میں اپنے تمام بچوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں اور یہ ممکن ہے۔ ان کا یہ بھی تجویز کرنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر ایک پروگرام 'ٹاکنگ اباؤٹ مائی ڈیڈ‘ شروع کر سکتے ہیں اور اس پروگرام میں مقبولیت کے تمام عناصر پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈی انتونیو کے خیال میں ان کی بڑی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے پروگرام کا نام ' لولی لائک مِی‘ (Lovely like me) ہو سکتا ہے اور ایسے بے شمار امکانات ہیں۔
امریکی صدر کتنا طاقت ور ہوتا ہے؟
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
حیران کن بات
مائیکل ڈی انتونیو کے خیال میں یہ انتہائی حیران کن بلکہ صدماتی ہو گا اگر جنوری سن 2021 میں وہ وائٹ ہاؤس کو خیر باد کہنے کے بعد ٹیلی وژن انڈسٹری سے وابستہ نہیں ہوتے۔ امریکی صحافی کے خیال میں ریئل اسٹیٹ یا ہوٹلنگ کا کاروبار بہت مشکل ہوتا ہے اور ایسا ممکن ہے کہ ٹرمپ خاندان ایسے کاروبار میں سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیں۔ اس تناظر میں ان کا کہنا ہے کہ اس وقت لگژری کاروبار اتنا منافع بخش دکھائی نہیں دے رہا اور ایسا سوچا جا سکتا ہے کہ یہ خاندان ایسے کاروبار سے جڑے اثاثے فروخت کر دیں۔
الیکشن لڑنے کا امکان
مائیکل ڈی انتونیو کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طاقت واشنگٹن سے باہر زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ انا پرستی سے مجبور ہو کر صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن ڈی انتونو کے نزدیک اس کا امکان خاصا کم دکھائی دیتا ہے۔ صحافی کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ ٹیلی وژن اسٹوڈیو میں زیادہ مسرت حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ وہ مسلسل اسکرین پر اپنے ووٹرز یا ناظرین کے سامنے ظاہر ہوتے رہیں گے اور اس طرح امریکی عوام پر اپنا اثر و رسوخ بھی برقرار رکھ سکیں گے۔
امریکی صحافی مائیکل ڈی انتونیو نے ان خیالات کا اظہار ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔