ٹرمپ کا مواخذہ: امریکی ڈیموکریٹس نے کارروائی کا اعلان کر دیا
25 ستمبر 2019
امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی باقاعدہ کارروائی شروع کرنے کے لیے چھان بین کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کی وجہ صدر ٹرمپ کی طرف سے یوکرائن کی قیادت پر مبینہ غلط دباؤ بنا۔
اشتہار
نینسی پیلوسی نے منگل چوبیس ستمبر کی شام اعلان کیا کہ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے باقاعدہ چھان بین کی جائے گی اور اس کا سبب یہ دعوے بنے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقی یورپی ملک یوکرائن کی قیادت پر مبینہ طور پر یہ دباؤ ڈالا تھا کہ وہ ٹرمپ کے حریف امریکی سیاستدان اور سابق صدر باراک اوباما کے دور میں ملکی نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن کے خلاف چھان بین کرے۔
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اس تفتیش کا نتیجہ ممکنہ طور پر ان کے صدارتی مواخذے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ لیکن اس وقت اس کارروائی کے آئندہ حتمی نتیجے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکا میں اگلے برس یعنی 2020ء میں صدارتی الیکشن ہوں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ چھان بین، جو اتنی جلد پوری نہیں ہو گی، اس الیکشن سے قبل امریکا میں داخلی سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ اور شدید حد تک دھڑے بندی کا شکار بنا دے گی۔
'بے عزت کر دینے والے حقائق‘
اس بارے میں ایوان نمائندگان کی خاتون اسپیکر نے ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے اپنے ایک خطاب میں کہا، ''صدر ٹرمپ کے اقدامات سے ایسے بےعزت کر دینے والے حقائق کا انکشاف ہوا ہے، جن کا مطلب صدر کی ان کے عہدے کے تقاضوں سے دھوکا دہی ہے۔ اس طرح ہماری قومی سلامتی کے تقاضوں سے دھوکا کیا گیا ہے اور ہمارے انتخابی نظام کے قابل عزت اور قابل احترام ہونے کو بھی داغدار کر دیا گیا ہے۔‘‘
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
نینسی پیلوسی نے اپنی تقریر میں مزید کہا، ''صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) کو لازمی طور پر جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔ کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہوتا۔‘‘ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے سے متعلق ایک باقاعدہ انکوائری شروع کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ الزامات بنے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اگلے برس اپنے دوبارہ انتخاب کے خواہش مند ہیں، امریکی صدارتی الیکشن اور یوں داخلی سیاست میں ایک غیر ملکی حکومت سے مبینہ مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
سیکرٹ سروس اہلکار کی شکایت
صدر ٹرمپ کے خلاف ان الزامات کا ذریعہ ایک ایسا اسکینڈل ہے، جس کے مطابق ایک امریکی خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے باقاعدہ شکایت کی کہ اس سال 25 جولائی کو صدر ٹرمپ نے یوکرائن کے صدر وولودومیر زیلنسکی کو فون کیا اور مبینہ طور پر ان سے مدد مانگی۔
یہ مبینہ مدد اس دباؤ کی صورت میں تھی کہ یوکرائن جو بائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر کے بارے میں چھان بین کرے۔ جو بائیڈن نہ صرف صدر اوباما کے دور میں نائب صدر تھے بلکہ وہ ممکنہ طور پر 2020ء کے امریکی صدارتی الیکشن میں ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹ امیدوار بھی ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی طرف سے تردید
اپنے خلاف ان الزامات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس وقت نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے موجود تھے، ٹوئٹر پر ایک پیغام میں نہ صرف ان کی تردید کی بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ یوکرائن کے صدر زیلنسکی کے ساتھ اپنی ٹیلی فون پر بات چیت کا مکمل تحریری متن بھی جاری کر دیں گے۔
اپنی اس ٹویٹ میں امریکی صدر نے مزید لکھا، ''اس فون کال میں بہت دوستانہ گفتگو ہوئی اور اس میں جو بائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔ یہ (ٹرمپ کے خلاف انکوائری) تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے تباہ کن ساز باز کے سلسلے ہی کی ایک کڑی ہے۔‘‘
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
صدارتی مواخذے کا طریقہ کار
امریکی آئین کے مطابق صدارتی مواخذے کا اختیار صرف ایوان نمائندگان کو حاصل ہے جبکہ امریکی سینیٹ ملکی صدر کے مواخذے کے فیصلے پر اپنی کارروائی کر سکتی ہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ ارکان کو غلبہ حاصل ہے اور اگر امریکی کانگریس کے اس ایوان زیریں نے ٹرمپ کے مواخذے کا کامیابی سے فیصلہ کر بھی لیا، تو صدر کو قصور وار قرار دینے، یعنی اس کی برطرفی، کا اختیار ریپبلکن ارکان کے غلبے والے ایوان بالا یا سینیٹ کے پاس ہو گا۔ موجودہ حالات میں جب کہ سینیٹ میں ریپبلکن ارکان کی اکثریت ہے، یہ بات ویسے بھی ناقابل عمل لگتی ہے کہ سینیٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو قصور وار قرار دے دے گی۔
امریکی تاریخ میں آج تک صرف دو صدور کا مواخذہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک اینڈریو جانسن تھے اور دوسرے بل کلنٹن۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی صدارتی منصب سے علیحدگی پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ جانسن اور کلنٹن کے برعکس رچرڈ نکسن وہ امریکی صدر تھے، جنہوں نے ایوان نمائندگان کے ہاتھوں اپنے مواخذے سے بچنے کے لیے صدارتی منصب سے مستعفی ہو جانے کو ترجیح دی تھی۔
م م / ش ح (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
امریکی صدر کے دور صدارت کا پہلا سال، چند یادگار لمحات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ پہلی بار صدرات کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے کئی ایسے متنازعہ بیانات اور فیصلے سامنے آئے جو بلا شبہ یادگار قرار دیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/E. Vucci
مسلم ممالک کے خلاف امتیازی سلوک اور عدالتی کارروائیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کا منصب سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اچانک سات مسلم ممالک کے شہریوں کا 90 روز کے لیے جبکہ تمام ممالک سے مہاجرت کرنے والوں پر 120 دن کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، جسے بعد میں ملکی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Jones
وفاقی تحقيقاتی ادارے کے سربراہ کی اچانک معطلی
نو مئی کو اچانک امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ جیمز کومی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم میں ہیلری کلنٹن کو شکست دینے کے لیے روس کی مدد لی گئی تھی یا نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Somodevilla
ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے اخراج کا فیصلہ
یکم جون 2017 کو امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکا ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے یعنی پیرس معاہدےسے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم اس ماہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا چند من مانی شرائط پوری کيے جانے کی صورت میں واپس اس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی
گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی امریکی دھمکی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ شدید کشیدہ ہوگئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Contini
ٹیکس اصلاحات کا نفاذ
امریکی تاریخ میں ٹیکس کی سب سے بڑی کٹوتی کا اصلاحاتی بل بھی صدر ٹڑمپ کے دور صدارت میں نافذ کيا گيا۔ یہ ٹیکس کے نظام میں 1986ء کے بعد کی جانے والی یہ سب سے بڑی اصلاحات تھیں۔